1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فيس بُک پر دوست ہزاروں، حقيقت ميں صرف چار‘

عاصم سليم20 جنوری 2016

کيا واقعی کسی شخص کے ايک ہزار حقیقی دوست ہو سکتے ہيں؟ يا پانچ سو؟ لیکن ایک مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق کسی شخص کے دو سو سے زائد حقیقی دوست ہونا ناممکن سی بات ہے۔

https://p.dw.com/p/1HgSA
تصویر: Colourbox/lev dolgachov

رائل سوسائٹی اوپن سائنس جرنل ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ انسانی دماغ کی صلاحيت اور وقت کا محدود ہونا وہ اہم وجوہات ہيں، جن کی وجہ سے کسی بھی فرد کے ليے سوشل ميڈيا پر تقريباً ڈيڑھ سو سے زائد دوست احباب کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بقيہ ’شناسا‘ يا ’واقف کار‘ ہوتے ہيں، جنہيں ديکھ کر پہچانا جا سکتا ہے۔

ارتقاء سے متعلق برطانوی سائنسدان اور نفسياتی ماہر روبن ڈُنبار نے اپنی ايک تحرير ميں دوست احباب کی حد ڈيڑھ سو مقرر کی تھی، جسے ’ ڈُنبارز نمبر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تازہ مطالعے کے مصنف بھی وہی ہيں اور ان کا ماننا ہے کہ آن لائن دوست احباب کے ليے بھی يہی ہندسہ درست ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اس ميں ذرا سی گنجائش تو ضرور ہے تاہم زيادہ نہيں۔ اس کا زيادہ تر دارومدار اس پر ہے کہ آپ کتنی مضبوظ يا کمزور دوستی چاہتے ہيں۔‘‘

اوسطاﹰ کسی فرد کے پانچ انتہائی قريبی دوست ہوتے ہيں، پندرہ بہترين دوست، پچاس کے لگ بھگ اچھے دوست، تقريباً ڈيڑہ سو مجموعی دوست اور پانچ سو کے قريب واقف کار اور قريب ڈيڑھ ہزار ايسے لوگ جنہيں ہم آن لائن ديکھ کر ان کی شناخت کر سکتے ہيں۔

اوسطاﹰ کسی فرد کے پانچ انتہائی قريبی دوست ہوتے ہيں، پندرہ بہترين دوست، پچاس کے لگ بھگ اچھے دوست، تقريباً ڈيڑہ سو مجموعی دوست اور پانچ سو کے قريب واقف کار
اوسطاﹰ کسی فرد کے پانچ انتہائی قريبی دوست ہوتے ہيں، پندرہ بہترين دوست، پچاس کے لگ بھگ اچھے دوست، تقريباً ڈيڑہ سو مجموعی دوست اور پانچ سو کے قريب واقف کارتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

ارتقاء کے موضوع کے ماہر روبن ڈُنبار کہتے ہيں، ’’کبھی کبھار فيس بُک پر لوگوں کے پانچ سو يا ايک ہزار دوست بھی ہو سکتے ہيں تاہم وہ محض واقف کاروں يا شناسا کی دوستوں کے طور پر درجہ بندی کر رہے ہيں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ويب سائٹ فيس بُک مختلف اقسام کی دوستيوں کی تفريق نہيں کرتی۔ ڈُنبار کی طرح کے ديگر نفسياتی ماہر يہی مانتے ہيں کہ دوستی کی حد کا دارومدار دو چيزوں پر ہوتا ہے۔ ان ميں ايک دماغ کی مختلف رشتوں کو سنبھالنے کی صلاحيت اور دوسرا وقت کا محدود ہونا ہے۔ اس بارے ميں ايک عرصے سے قياس آرائياں جاری تھيں کہ شايد فيس بُک ايک ہی وقت ميں زيادہ افراد سے رابطہ ممکن بنا کر اس حقيقت کو بدل پائے۔

روبن ڈُنبار نے اپنے مطالعے کے ليے برطانيہ ميں تقريباً 3,300 افراد سے دو مختلف جائزوں ميں حاصل کردہ ڈيٹا استعمال کيا۔ پہلے گروپ ميں شامل افراد کے فيس بُک پر دوستوں کی اوسط تعداد 155 تھی جبکہ دوسرے گروپ ميں شامل افراد کے فيس بُک دوستوں کی اوسط تعداد 183 تھی۔ جب ان سے دريافت کيا گيا کہ کسی مشکل صورتحال ميں ان کے کتنے ايسے دوست ہيں، جو ان کی مدد کے ليے فوری طور پر آ سکتے ہيں، تو انہوں نے جواب ميں چار کہا۔ پھر ان سے پوچھا گيا کہ کتنوں کو افسوس ہو گا، تو جواب ملا چودہ کو۔ يہ اعداد و شمار حقيقی دنيا ميں رشتوں يا دوستی سے منسلک رويوں کی عکاسی کرتے ہيں۔

مصنف کے بقول لوگوں کو اس بات کا بھی خيال رکھنا چاہيے کہ وہ معروف صحافيوں، گلوکاروں يا سياست دانوں کو مثال نہ بنائيں کيونکہ يہ لوگ فيس بُک کو مداحوں کے ايک بلا معاوضہ کلب کی طرح استعمال کرتے ہيں اور ان کے ليے يہ لازمی نہيں کہ وہ اپنے دوستوں کی فہرست ميں ہر کسی کو جانيں پہچانيں۔