1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلک بوس عمارات، لندن کاحسن ماند؟

12 اپریل 2011

لندن میں زیر تعمیر ایک فلک بوس عمارت ہر نئی منزل کی تعمیر کے ساتھ بلندی کے ریکارڈز قائم کرتی جارہی ہے، تاہم تنقید نگاروں کی نظر میں یہ بلند عمارات لندن کے روایتی حُسن اور اسکائی لائن کو تباہ کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/10rzo
تصویر: AP

'The Shard’ نامی اس عمارت کے کو فن تعمیر کے ماہر اطالوی آرکیٹیکٹ 'Renzo Piano' نے ڈیزائن کیا ہے۔ 310 میٹر یعنی 1,016 فٹ بلند یہ عمارت سن 2012ء میں اپنی تکمیل کو پہنچے گی جس کے بعد یہ یورپ کی بلند ترین عمارت بن جائے گی۔

Sir Norman Fosters, Swiss RE Gebäude
لندن کی Swiss Re عمارتتصویر: Martin Rütschi dpa

اس عمارت کی اب تک 72 منزلیں تعمیر ہوچکی ہیں جبکہ مزید 15 منزلوں کی تعمیر ابھی باقی ہے۔ تکمیل کے بعد لندن کے خط افق پر اسی عمارت کا تسلط ہوگا اور اس کے سامنے لندن کی تاریخی عمارات مثلاﹰ 'St. Paul's Cathedral' اور پالیمنٹ کی عمارات پستہ قد دیکھائی دیں گی۔ لندن میں صرف یہی ایک نہیں بلکہ آدھی درجن مزید ایسی عمارات بھی ہیں جو آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

انہی میں سے ایک خمدار بلاک والی ایک عمارت ہے جسے واکی ٹاکی کا نام دیا گیا ہے ۔ اسی طرح 'The Cheese Grater' کا نام دی گئی ایک اور بلند عمارت بھی زیر تعمیر ہے جو کہ ایک طرف سے تو بالکل سیدھی ہے مگر دوسری طرف سے تھوڑا ڈھلوان۔ اس کے علاوہ 'The Pinnacle' نام کی بھی ایک عمارت ہے جس کی شکل سپرنگ نما ہے، اسی وجہ سے اسے ہیلٹر سکیلٹر بھی کہا جاتا ہے۔

پیٹر ریز گزشتہ 25 برسوں سے لندن کے مالی حلقے کی منصوبہ بندی کے ذمہ دار ہیں۔ نئی عمارتوں اور شہروں کی تعمیر کے حوالےسے وہ خاصے پُر جوش ہیں اور ان کے مطابق ان عمارات کو دی گئی عوامی عرفیت اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے اور عوام نے خود ان عمارات کو دوستانہ نام دیا ہے ۔ ان کے مطابق اگر یہ عمارات انہیں پسند نہ ہوتیں تو وہ انہیں اس طرح کے نام نہ دیتے۔

لندن میں بلند ترین عمارات کی تعمیر اور ان کو عرفیت دینے کے سلسلے کا آغاز سن 2003ء میں 'Swiss Re' کی تعمیر سے ہوا۔ اس بلڈنگ کو دنیا بھر میں اس کے اصل نام '30 St Mary Axe' کے بجائے 'The Gherkin' کے عرف عام سے جانا جاتا ہے۔

Flash-Galerie London
لندن کی وجہ شہرت اس کی تاریخی عمارات بھی ہیںتصویر: visitlondonimages/britainonview/Pawel Libera

لندن کی طرح پیرس میں بھی، جہاں تاریخی عمارات کی بھرمار ہے، چند مخصوص علاقوں میں ان بلند عمارات یا اسکائی اسکریپرز کو نہایت ترتیب وار اور سلیقے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ جبکہ لندن میں یہ بلند عمارات شہر کے مختلف حصوں میں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اب بھی ان بلند عمارات کی تعمیر کی اجازت حاصل کرنے میں اکثر کئی سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آسمان سے باتیں کرتی اور بڑے بڑے شیشوں والی عمارت 'The Shard' کو بھی تعمیر کی اجازت حاصل کرنے میں 12 برس لگ گئے۔

گو کہ لندن میں عمارتوں کی زیادہ سے زیادہ بلندی پر کوئی قدغن نہیں، تاہم حکام کی کوشش ہوتی ہے کہ شہر میں دریا کےکنارے اور قریب و جوار میں واقع پہاڑیوں سے تاریخی عمارات کا منظر نظر آسکے۔

دوسری طرف ان بلند عمارات پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اور اس جیسی دوسری بلند عمارات لندن کی روایتی اسکائی لائن کو تباہ کر رہی ہیں۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت:افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں