1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: ایک ربی، ایک امام اور دوستی کی ایک بس

الزبیتھ بریانٹ/ عاطف توقیر5 جولائی 2015

میشل سرفاتی گزشتہ ایک دہائی سے مسلمانوں اور یہودیوں کے آپس میں مل بیٹھنے، مذاکرے کرنے اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانسیسی ریاست یہ کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fsv1
Rabbi Michel Serfaty
تصویر: DW/E. Bryant

’ابھی کچھ دن پہلے مجھے ایک شخص نے گندا یہودی کہہ کر پکارا، تم بھی یہی کہنے والے ہو، ایسا ہے ناں؟‘ میشل نے جب ایک مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ پوچھا تو اس شخص نے جواب میں صدائے احتجاج بلند کی۔ اس مسلمان کا کہنا ہے، ’’ایسے جملے شرم ناک ہیں اور زیادہ تر مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔‘‘ ایسے میں قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور اپنی گاڑیاں آہستہ کر کے سر پر سیاہ ہیٹ جمائے باریش میشل سرفاتی کی طرف دیکھتے ہوئے وہاں سے گزر رہے ہیں۔

یہ دونوں افراد شیشوں سے مرصع یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس کے مرکزی دفتر کے سامنے کھڑے ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی یہ قدامت پسند تنظیم مصر میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھتی ہے۔ اس دفتر میں دوپہر کے وقت مسلم مرد نماز کے لیے بھی جمع ہوتے ہیں۔

Rabbi Michel Serfaty
سرفاتی بات چیت کو تناؤ کا واحد حل قرار دیتے ہیںتصویر: DW/E. Bryant

ایک یہودی ربی کی ایسے مقام پر موجودگی یقیناﹰ اچھوتی بات ہے، مگر سرفاتی کوئی عام ربی نہیں۔ سرفاتی گزشتہ ایک دہائی سے فرانس بھر میں ایک منی بس چلاتے پھرتے ہیں، جس پر ’مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یک جہتی‘ اور ’ہم وہ نہیں جو تم سوچتے ہو‘ جیسے نعرے درج ہیں۔

سرفاتی غزہ جا کر وہاں کے فلسطینیوں سے بھی ملے اور فرانس کے مسلم آئمہ کو ساتھ لے کر نازیوں کے سابقہ اذیتی کیمپ آؤشوٹس بھی گئے۔ مگر وہ زیادہ تر فرانس کے مختلف علاقوں میں قدامت پسند مسلم رہنماؤں، طلبہ اور حتیٰ کہ منشیات بیچنے والوں کے ساتھ بھی مذاکروں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی دس برس سے جاری اس کوشش کا بنیادی محور بات چیت کے ذریعے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان دوستی قائم کرنا ہے۔

میشل سرفاتی کا کہنا ہے، ’’کچھ لوگ ہمارے پمفلٹ لیتے ہیں اور زمین پر پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’یہودیوں کو قتل کر دیا جانا چاہیے‘‘ اور ’’ہٹلر نے اپنا کام پورا نہیں کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ’’ہم ایک طرف شدت پسندی میں مسلسل اضافہ دیکھتے ہیں مگر ساتھ ہی کچھ نہایت عمدہ نوجوان بھی ملتے ہیں۔‘‘

فرانس میں شارلی ایبدو میگزین پر حملے اور گزشتہ ہفتے لیوں شہر میں ایک شدت پسند کے ہاتھوں ایک شخص کے سر کے قلم کیے جانے کے واقعے نے سرفاتی کو مزید متحرک بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہاپسند نظریات کے حامل مسلمان فرانس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔

فرانس میں یہود مخالف کارروائیوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پچھلے برسوں کے مقابلے میں سن 2014ء میں اس طرز کے 850 حملے ریکارڈ کیے گئے۔

سرفاتی کا کہنا ہے، ’’ریاست نے اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا۔ اس تمام عرصے میں مَیں مختلف علاقوں میں گیا۔ میں نے انتہائی بدترین جملے بھی سنے، مگر میرا کبھی کسی برے اقدام سے واسطہ نہیں پڑا۔‘‘

ان کا کہنا ہے، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے برے حالات میں بھی مذاکرات اور بات چیت کا امکان موجود ہے، جس میں ہاتھ ملائے جائیں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو۔‘‘

سرفاتی مسلم آئمہ کو یہودی عبادت گاہوں میں بھی لے کر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں مذہبی برادریوں کے قریب آنے اور ایک دوسرے کے روزمرہ کو جاننے سے آپس میں موجود دشمنی کے جذبات کم ہوں گے۔