1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرار کی کوشش ، شدت پسند پولیس مقابلے میں ہلاک

عابد حسین2 ستمبر 2015

پاکستانی پولیس کے مطابق دو گرجا گھروں پر کیے گئے خود کُش حملوں میں ملوث تین مبینہ عسکریت پسند پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ یہ ہلاکتیں پولیس پر کیے گئے ایک حملے کے دوران ہوئی۔

https://p.dw.com/p/1GQ4o
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستانی صوبے پنجاب کی پولیس کے ایک سینئر پولیس اہلکار حیدر اشرف نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تفتیشی عمل کے دوران تینوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو لے کر پولیس وین واپس آ رہی تھی کہ گرفتار دہشت گردوں کی رہائی کے لیے اُن کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ گھات لگا کر کیا گیا تھا۔ حیدر اشرف کے مطابق حملہ آوروں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں گرفتار عسکریت پسند فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارے گئے۔ پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر کے مطابق حملہ آور موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق پولیس تینوں گرفتار عسکریت پسندوں کو صوبہ پنجاب کے صدر مقام لاہور کے نواحی علاقے لے کر گئی تھی تاکہ وہ چھپایا گیا بارودی سامان برآمد کیا جا سکے۔ پولیس نے گرفتار افراد کی نشاندہی پر ایک گاؤں کے ایک مکان سے خود کُش حملوں میں استعمال کی جانے والی بارودی جیکٹیں، اور دوسرے ہتھیاروں کو تلاش کر کے اپنے قبضے میں لے لیا۔ تفتیشی پولیس پارٹی جب واپس آ رہی تھی تو اُن پر حملہ کر دیا گیا۔ حملے کا مقصد گرفتار عسکریت پسندوں کو رہا کرانا خیال کیا گیا ہے۔ پولیس کے دو افسران کے زخمی ہونے کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔

‚bbig#

آج بدھ کے روز مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے تینوں عسکریت پسند چار اگست کو حراست میں لیے گئے تھے۔ پولیس نے گرفتاری کے بعد اِن کا تعلق کالعدم تحریکِ طالبان کے علیحدہ ہونے والے ایک گروپ سے بتایا تھا۔ یہ تینوں رواں برس مارچ میں لاہور کی قریبی بستی یوحنا آباد کے دو گرجا گھروں پر کیے گئے خود کُش حملوں کے شریک ملزم تھے۔ چرچ حملوں میں سترہ افراد کی ہلاکت اور ستر زخمی ہوئے تھے۔ گرجا گھروں پر حملے کے بعد لاہور کی مسیحی آبادی نے دو روز تک مظاہرے بھی جاری رکھے تھے۔ اِن میں مسیحی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ یوحنا آباد میں ایک لاکھ مسیحی رہتے ہیں۔

چند ہفتے قبل جولائی میں ایک ایسے ہی پولیس مقابلے میں کالعدم شیعہ مخالف تنظیم لشکر جھنگوی کے رہنما ملک اسحاق کو اُس کے دوسرے ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد پولیس کے بیان میں بتایا گیا تھا کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے انتہا پسند اپنے رہنما کو پولیس کے شکنجے سے آزاد کرانے کی کوشش میں پولیس دستے پر حملہ آور ہوئے تھے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ایسے پولیس مقابلوں کو جعلی قرار دیتے ہوئے ان ہلاکتوں کو ماورائے عدالت و قانون قرار دیتے ہیں۔