1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فتح پارٹی کا اجلاس، اندرونی جھگڑوں کو ختم کرنے کا عزم

10 اگست 2009

فلسطينی تنظيم فتح نے اپنی پارٹی کانگريس ميں صدر محمود عباس کو ايک بار پھر تنظيم کا قائد منتخب کرليا ہے۔ ان کے مقابلے پر کوئی اور اميدوار کھڑا نہيں ہواتھا۔

https://p.dw.com/p/J79q
محمود عباس کو پارٹی قائد کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فيصلہ کيا گياتصویر: AP

سب سے بڑی فلسطینی تنظیم فتح کے پارٹی اجلاس ميں 74 سالہ محمود عباس کو پارٹی قائد کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فيصلہ کيا گيا۔ فتح نے کل ايک نئے پارٹی پروگرام ميں اسرائيل کے ساتھ بات چيت کے ذريعہ امن قائم کرنے کے عزم کو دہرايا۔

دريائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے ميں ہونے والے پارٹی اجلاس ميں دوہزار دوسو سے زائد وفود شرکت کر رہے ہيں۔ پچھلے ہفتے منگل کو شروع ہونے والے اجلاس کو تين دن تک جاری رہنا تھا ليکن اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے اس ميں آٹھ دن تک کی توسيع کر دی گئی ہے۔ فتح کی قيادت کے چناؤ کے لئے، پچھلے 20 برسوں ميں يہ پہلے انتخابات ہيں۔ 21 اراکين پر مشتمل مرکزی کميٹی اور ايک سو بيس اراکين پر مشتمل انقلابی کونسل، مرحوم فلسطينی رہنما ياسرعرفات کی 1950ء ميں قائم کردہ پارٹی کے اہم ترين قيادتی ادارے ہيں۔

Fatah Konferenz
دريائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے ميں ہونے والے پارٹی اجلاس ميں دوہزار دوسو سے زائد وفود شرکت کر رہے ہيںتصویر: AP

فلسطينی خودمختار انتظاميہ کو کنٹرول کرنے والی فتح پا رٹی، 2006ء کے پارليمانی انتخابات ميں حماس کی کاميابی تک، بلا شرکت غير فلسطينيوں پر حکمران تھی ليکن حماس نے کئی روزہ خونريز لڑائی کے بعد 2007ء ميں فتح کو غزہ پٹی کے ساحلی علا قے سے نکلنے پر مجبور کر ديا تھا۔ اس کے بعد سے وہ دريائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے تک ہی محدود ہوچکی ہے۔

ايک فلسطينی رہنما خليل شوکے نے فتح کے پارٹی اجلاس کے بارے ميں کہا :’’ہميں اتحاد، صلح اور ايک مشترکہ موقف اور تصور کی ضرورت ہے۔ بالآخر ہميں آزادی اور ايک الگ رياست چاہئے۔‘‘

فتح کے منظورکردہ پروگرام کے مطابق ايک آزاد فلسطينی رياست کو سياسی طريقے پر حاصل کيا جائے گا ليکن طاقت کے استعمال کے ذريعے مزاحمت، کاغذی طور پر برقرار رہے گی۔

فتح نے مشرقی يروشلم پر فلسطينيوں کے حق اور اسرائيلی بستيوں کے خاتمے کے مطالبات پر زور دينے کے ذريعے حماس کے مقابلے ميں اپنی پوزيشن کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسرائيلی وزير اعظم نيتن ياہونے اس کے جواب ميں کہا: ’’ہم اسے يقينی بنائيں گے کہ اگر اعتدال پسند فلسطينی واقعی امن چاہتے ہيں تو يہودی رياست کا تسليم کیا جانا اور فلسطين کو غير فوجی علاقہ قرار دیا جانا کسی بھی امن معاہدے کا لازمی حصہ ہونے چاہییں۔‘‘

يہودی بستيوں کی مخالفت کرنے والی اسرائيلی تنظيم peace now کے قائد اوپن ہائمر نے کہا کہ اگر فتح کے پروگرام کا ايمانداری سے جائزہ ليا جائے تو اس ميں اسرائيل کے ساتھ امن قائم کرنے کی نئی فلسطينی خواہش کا اظہار ملتا ہے۔

رپورٹ : ٹورسن ٹائشمن، تل ابیب / شہاب احمد صدیقی

ادارت : امجد علی