فارن بورو ایئر شو میں ڈرون کا چرچہ
23 جولائی 2010افغانستان کی جنگ نے عالمی سطح پر ڈرونز یا بغیر پائلٹ کے ہوائی جہازوں کو بہت زیادہ مقبولیت دی ہے۔ اس کے تناظر میں بعض چھوٹے ہوائی جہاز بنانے والی کمپنیوں کو یقین ہے کہ ایسے جہازوں کو مارکیٹ کرنا منافع بخش ہو سکتا ہے۔ اس باعث انیس جولائی سے انگلینڈ کے مشہور فارن بورو ایئر شو میں ان ہوائی جہازوں کے نئے نمونے رکھے گئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پیش کش شاید ہی منافع بخش ہو سکے۔ یہ ایئر شو پچیس جولائی کو ختم ہو گا۔
ایسے ہوائی جہازوں کو مارکیٹ کرنے کا بنیادی مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خطرناک کاموں میں انسانوں کو دھکیلنے کے بجائے روبوٹ سے کام لیا جائے تا کہ انسانی جان کا ضیاع کم سے کم ہو سکے۔ بعض انتہائی بیزار کام بھی روبوٹس سے لینے کے حوالے سے پلاننگ کی جا رہی ہے۔ ایک تجارتی گروپ نارتھروپ گرومین سے وابستہ ایڈ والبئی کا خیال ہے کہ ،’’خفیہ نگرانی یا جنگی مقامات کا مشاہدہ جنگ سے پہلے ضروری ہوتا ہے اور اختتام پر بھی، مستقبل میں جنگ جیتنے میں یہ عوامل مرکزیت کے حامل ہوں گے۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ اس مقصد میں ڈرزونز انتہائی اہم ہیں۔
افغانستان میں جاری جنگ میں مختلف حصوں کی نگرانی اور تصویر کشی کے لئے استعمال ہونے والے ڈرونز کا کاروباری نام ’گولڈن ہاک‘ یا سنہرا شکرا ہے۔ گولڈن ہاک زمین پر تعمیراتی منصوبوں کی انتہائی بلندی سے انفراریڈ شعاوں کے ذریعے باکمال تصویر کھینچ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے بعض حصوں میں عسکریت پسندوں کو جس بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز یا ڈرون سے امکانی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے وہ پری ڈیٹر نامی ڈرون ہے۔ گولڈن ہاک ڈرون کی قیمت تیس ملین ڈالر ہے۔ پریڈیٹر ڈرون کی قیمت چارسے چودہ لاکھ ڈالر کے درمیان ہے۔ اسی طرح ایک اور ڈرون کو ایئر شو میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کا نام واچ کیپر ہے۔ اس کو تھیلز نامی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ اس کی قیمت بھی گولڈن ہاک سے کافی کم ہے۔
پریڈیٹر بنانے والی کمپنی جنرل اٹامکس نے اپنے جہازوں کی فروخت اب امریکہ سے باہر شروع کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے ممکنہ گاہک ملکوں میں مغربی یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ملک نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان بھی ایک ممکنہ گاہک ہو سکتا ہے۔
جنرل اٹامکس نے امریکی حکومت کو درخواست کی ہے کہ وہ بغیر پائلٹ کے یہ ہوائی جہاز پاکستان کو بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جنرل اٹامکس کے گاہکوں کی فہرست میں برطانیہ، سعودی عرب، ترکی اور سپین کے نام بھی شامل ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف