فائر بندی کی تردید، طالبان کے حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک
23 نومبر 2011گزشتہ روز کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ایک قریبی کمانڈر کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس انتہا پسند گروہ نے امن مذاکرات کی خاطر یکطرفہ طور پر ملک بھر میں فائر بندی کا اعلان کیا ہے۔ تاہم آج بدھ کو خبر رساں ادارے اے پی نے طالبان باغیوں کے ایک ترجمان کے حوالے سے اس بیان کی تردید کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بدھ کی صبح سورج طلوع ہونے سے قبل مسلح جنگجوؤں نے اس پولیس اسٹیشن پر راکٹ اور دستی بموں سے حملہ کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں کم ازکم سات پولیس اہلکار زخمی بھی ہو گئے۔ پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ضلعی پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار سہیل خالق نے بتایا، ’مسلح حملہ آوروں کی کارروائی کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار مارے گئے جبکہ دیگر سات زخمی ہو گئے‘۔
سہیل خالق کے بقول حملہ آوروں کی تعداد قریب ایک درجن تھی، ’ان کی تعداد دس تا بارہ تھی۔ وہ گاڑیوں میں سوار ہو کر آئے تھے اور ان کے پاس راکٹ اور دستی بم بھی تھے۔ انہوں نے حملے کے دوران فائرنگ بھی جاری رکھی‘۔
بتایا گیا ہے کہ حملہ آور بعد ازاں انہی گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حملے کے وقت پولیس اسٹیشن پر موجود ڈیوٹی افسر نیاز احمد نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان میں تحریک طالبان امریکہ نواز حکومت کے مخالف ہے۔ یہ انتہا پسند گروہ جولائی 2007ء سے اب تک اپنی مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں کم ازکم 4700 افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔
پاکستانی فوج اور تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی رہنما امن مذاکرات کی تردید کرتے ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں یہ جنگجو گروہ اثرورسوخ رکھتا ہے اور وہاں اس طرح کی دہشت گردانہ کارروائیاں روز کا معمول سمجھی جاتی ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی