غیرت کے نام پر قتل، درخت کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دے دی
15 ستمبر 2016نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ واقعہ ملتان سے پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں چک 56 میں پیش آیا۔ قتل ہونے والی نوجوان خاتون کا نام خالدہ بی بی بتایا گیا ہے۔ اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں خاتون کے والد اور بھائی کے ساتھ ساتھ اُس کا شوہر بھی شامل ہے۔ تینوں ملزمان نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔
مقامی تھانے کے انچارج سردار افضل ڈوگر کے مطابق اس خاتون کو اُس کے مبینہ آشنا کے ساتھ گھر کے عقبی احاطے میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا تھا، جس کے بعد اُس کے شوہر، والد اور بھائی نے پہلے اُن دونوں کو بُری طرح سے زد و کوب کیا اور پھر درخت کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دے دی۔
بتایا گیا ہے کہ مرنے والے لڑکے کا نام مختیار احمد تھا، جس کی عمر اُنیس برس تھی اور وہ رشتے میں خالدہ بی بی کا کزن بھی تھا۔
اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر ہر سال سینکڑوں افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے، جن کی بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ قتل کرنے والے اکثر ان خواتین کے وہ رشتے دار ہوتے ہیں، جن کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ خواتین کے غیر مردوں کے ساتھ تعلقات اُن کے لیے توہین اور شرم کا باعث بنے ہیں۔
اس سال جولائی میں پاکستان کے وفاقی وزیر قانون نے اعلان کیا تھا کہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے بڑھتے واقعات اور آبروریزی کے الزام میں عدالتوں کی جانب سے سزاؤں میں اضافے کے تناظر میں پارلیمان سے ایک قانون منظور کروایا جائے گا۔
اس اعلان سے پہلے غیرت کے نام پر قتل کے اُوپر تلے کئی واقعات ہوئے تھے، جن میں ماڈل قندیل بلوچ کا اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل کا واقعہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح جولائی ہی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سمیعہ شاہد کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ اس خاتون کے شوہر نے اپنی بیوی کے رشتے داروں کو اس قتل کے لیے قصور وار قرار دیا تھا۔
عموماً غیرت کے نام پر قتل کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں کیونکہ اُن کے گھر کا ہی کوئی فرد مدعی بن کر اُنہیں معاف کر دیتا ہے۔ نئے قانون کے تحت معافی کا یہ امکان ختم ہو جائے گا تاہم اب تک نہ تو اس قانون کا مسودہ منظر عام پر لایا گیا ہے اور نہ ہی پارلیمان میں اسے پیش کرنے کے لیے کسی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔