1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیرت کے نام پر بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں کو موت کی سزا

علی کیفی روئٹرز
16 جنوری 2017

ایک پاکستانی عدالت نے غیرت کے نام پر بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں کو موت کی سزا سنا دی ہے۔ پروین بی بی نے گزشتہ سال جون میں اپنی 18 سالہ بیٹی پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی، جس کے نتیجے میں وہ جل کر ہلاک ہو گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/2VsPq
Pakistan Familienrache Mutter tötet Tochter in Lahore
پروین بی بی، جسے اپنی بیٹی کو زندہ جلا کر ہلاک کرنے کے جرم میں قصور وار ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے تصویر: picture-alliance/Zuma Press/R.S. Hussain

پروین بی بی کو سزائے موت پاکستانی شہر لاہور میں قائم انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے سنائی۔ غیرت کے نام پر قتل کے اس کیس میں سزا اس عدالت کے جج چوہدری محمد الیاس نے سنائی۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ مرنے والی لڑکی زینت رفیق کا بھائی اور بہنوئی بھی اس واردات میں ملوث تھے اور اُنہوں نے بھی پروین بی بی کی معاونت کی تھی۔

عدالت کی جانب سے مقتولہ زینت رفیق کے بھائی انیس کو عمر قید کا حکم سنایا گیا جبکہ بہنوئی کو بری کر دیا گیا۔ اس سے پہلے پروین بی بی نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا اور کہا تھا کہ اُس نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کہ زینت رفیق کا اپنی پسند سے شادی کرنے کا  اقدام خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا تھا۔

عدالت میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ پہلے پروین بی بی نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر زینت کو بری طرح سے زد و کوب کیا تھا، جس کے بعد پروین بی بی نے مٹی کا تیل چھڑک کر اپنی بیٹی کو آگ لگا دی تھی۔

Pakistan Familienrache Mutter tötet Tochter in Lahore
لاہور کے پسماندہ علاقے فیکٹری ایریا کے گھر کی وہ سیڑھیاں، جہاں زینت رفیق کو آگ لگائی گئیتصویر: picture-alliance/dpa

لاہور کے ایک پسماندہ علاقے فیکٹری ایریا کی رہائشی زینت رفیق نے اپنے قتل سے تقریباً ایک ہفتہ قبل گھر سے بھاگ کر حسن خان نامی ایک نوجوان سے کورٹ میرج کر لی تھی۔ بعد ازاں زینت کے گھر والوں نے حسن خان کے ساتھ صلح کر لی اور وعدہ  کیا تھا کہ وہ باقاعدہ شادی کی تمام رسومات انجام دیتے ہوئے اپنے گھر سے زینت کو رخصت کریں گے۔ اس وعدے کے بعد حسن خان نے اپنی اہلیہ کو میکے جانے کی اجازت دے دی تھی۔

حسن خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینت واپس گھر نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ اُسے ڈر تھا کہ اُسے ہلاک کر دیا جائے گا۔ ایک مقامی ٹی وی چینل کے مطابق زینت پھر بھی اس بناء پر گھر جانے کے لیے راضی ہو گئی تھی کہ اُسے ہر طرح سے تحفظ اور سلامتی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔

Pakistan Familienrache Mutter tötet Tochter in Lahore
اٹھارہ سالہ زینت رفیق کا شوہر حسن خان میڈیا کو اپنے موبائل فون پر اپنی اہلیہ کی تصویر دکھا رہا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary

گھر سے دھواں اٹھنے پر ریسکیو اداروں اور پولیس کو اطلاع دی گئی تھی، جنہوں نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھائی لیکن تب تک زینت مر چکی تھی۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زینت رفیق کے خاندان کا کوئی بھی فرد اُس کی کوئلہ بن چکی لاش کو وصول کرنے پر تیار نہ ہوا، جس کے بعد اُس کے سسرال والوں نے اُس کی میت کو ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا۔

ٹامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے لیے لاہور سے اپنی ایک رپورٹ میں وقار مصطفیٰ نے لکھا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستانی پارلیمان نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے حوالے سے ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت کسی مقتول یا مقتولہ کے رشتہ دار سزائے موت کی صورت میں قاتل کو معاف تو کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی مجرم کو لازمی طور پر عمر قید کی سزا بھگتنا ہو گی۔