1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر معیاری ادویات کا اسکینڈل، عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

17 اپریل 2018

پاکستان میں ادویات سازی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ غیر معیاری ادویات بنانے والے اداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ کئی ادویات ساز کمپنیاں غیر ملکی آرڈرز کی منسوخی پر شدید پریشان ہیں۔

https://p.dw.com/p/2wCeT
AIDS HIV Medikamente Pakistan
تصویر: Getty Images/J.Moore

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے انکشاف کیا تھا کہ مختلف قومی اور غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے پنجاب کے ہسپتالوں کو فراہم کی جانے والی 104 ادویات غیر معیاری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ناقص کوالٹی کی ایسی ادویات پر پابندی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

اس انکشاف کے بعد پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں سے ان ادویات کو صوبے بھر کے ہسپتالوں سے اٹھوا لیا گیا ہے اور پنجاب کے وزیر صحت عمران نذیر نے سرکاری ہسپتالوں کو غیر معیاری ادویات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ان ادویات میں کھانسی کے بعض شربت بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ان میں ہیپاٹائیٹس، تیزابیت، گلے کی خرابی اور جسمانی درد کے علاج والی ادویات کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے عام استعمال کی بعض ادویات بھی شامل ہیں۔ غیر معیاری قرار دی جانے والی بعض ادویات معروف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بنائی ہوئی ہیں۔

Pakistan Krankenhaus Krankenschwestern
تصویر: DW/Ismat Jabeen

لاہور میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے سینئر حکام نے تصدیق کی کہ جولائی 2017ء  سے لے کر اپریل 2018ء  تک کے عرصے کے دوران پنجاب کے 107 سرکاری ہسپتالوں سے ادویات کے 4971 نمونے حاصل کئے گئے۔ ان میں سے 4867 ادویات کے نمونے درست قرار پائے جبکہ 104 ادویات کے نمونے فیل قرار دیے گئے۔ تاہم ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پنجاب میں محکمہ صحت کے ایڈیشنل سکریٹری ڈرگز محمد سہیل نے بتایا کہ ادویات کو غیر معیاری قرار دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سو فی صد مضر صحت ہیں، ’’بعض اوقات دوا کا وزن پورا نہ ہونے، پیکنگ خراب ہونے یا دوا ساز ادارے کی اس دوا کے حوالے سے بیان کردہ خصوصیات کے پورا نہ ہونے سے بھی ادویات ناقص قرار دے دی جاتی ہیں۔‘‘

’’صوبہ پنجاب‘‘ نئے ڈرگ ایکٹ کے خلاف ہڑتال، مریض پریشان

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں چند سال پہلے کھانسی کا ایک غیر معیاری شربت پینے سے شاہدرہ کے علاقے میں 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اس سے پہلے لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال میں ملاوٹ شدہ دوائی کھانے سے 119 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

میڈیسن مارکیٹ کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے سختی کے بعد بڑے شہروں میں تو ادویات کی کوالٹی میں بہتری آ رہی ہے لیکن دور دراز کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں اب بھی سب سٹینڈرڈ ادویات کی فراہمی جاری ہے۔

Arme Frau Pakistan
تصویر: DW

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نارتھ زون کے چئیرمین انجنیئر حسیب خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ادویات ساز ادارے برطانیہ، یورپ، افریقہ اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا کے 26 سے زائد ملکوں کو معیاری ادویات فراہم کر رہے ہیں۔ کئی پاکستانی ادارے یورپی اسٹینڈرڈز کے مطابق ادویات بنا رہے ہیں، اس لئے حکومت کی طرف سے غیر معیاری ادویات بنانے کا الزام غلط ہے۔ ان کے بقول الیکشن سے پہلے سستی شہرت کے حصول اور چیف جسٹس کے ہیلتھ سیکٹر کے حوالے سے دباؤ کی وجہ سے حکومت نمائشی اقدامات کے ذریعے ادویات ساز کمپنیوں کو بدنام کر رہی ہے، ’’اس وجہ سے پاکستان ادویات سازی کی عالمی منڈی میں اپنی ساکھ سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

ان کے بقول پہلی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے ڈرگ ٹیسٹنگ کے معیارات عالمی معیارات سے متصادم ہیں، ’’یہاں سے فیل کی جانے والی دوائی اسلام آباد کی لیبارٹری سے درست قرار پاتی ہے، کئی مرتبہ ادویات کی ظاہری صورتحال میں تبدیلی کا بہانہ بنا کر سیمپل فیل کر دیا جاتا ہے، یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہماری بنائی ہوئی ادویات کو حکومت نے کیسے ٹرانسپورٹ کیا، کس طرح کے ٹمپریچر اور کس طرح کے اسٹور میں رکھا گیا، ہم یہ ادویات اوپن مارکیٹ میں بھی سپلائی کر رہے ہیں آخر وہاں سے ایسی شکایات کیوں نہیں آتیں؟‘‘

 ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایسوسی ایشن حکومتی حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ’’دنیا بھر کی حکومتیں اپنی صنعتوں کا ساتھ دیتی ہیں، ہماری حکومت جھوٹی خبروں پر اپنے ملک کی ادویات کی صنعت کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔‘‘

میو ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر موجود ایک شہری وجاہت شیخ کا کہنا تھا کہ الزامات اور جوابی الزامات کی اس لڑائی میں سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ غیر معیاری ادویات کے اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے۔