1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر معمولی موسم اور خوراک کی پیداوار کیلیے خطرات

10 جون 2011

کرہ ارض پر درجہ حرارت میں اضافے، شدید خشک سالی، سیلابوں اور طوفانوں نے انسانوں کو خوراک پیدا کرنے کے نئے طریقوں پر غور کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ دُنیا بھر میں اَشیائے خوراک کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

https://p.dw.com/p/11XzC
تھائی لینڈ: چاول کے کھیت
تھائی لینڈ: چاول کے کھیتتصویر: Hartert

عالمی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لوگوں کی کھانے پینے کی عادات بدل رہی ہیں اور اناج، گوشت اور سبزیوں کی مانگ بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں خوراک کے پیداواری ذرائع پر دباؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ غیر معمولی انداز میں بدلتے موسم کاشتکاروں کو مختلف فصلوں کی کاشت کا وقت بھی تبدیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ خوراک کی قلت اور اَشیائے خوراک کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں سماجی بے چینی کا سبب بھی بن رہی ہیں اور ایسی فصلیں اُگانے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، جو زیادہ سے زیادہ پیداوار دے سکیں۔

عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ آج کل دُنیا میں 925 ملین انسانوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ اس تعداد میں نوے کے عشرے کے وسط سے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بار بار پیدا ہونے والے اقتصادی بحرانوں اور زراعت کے شعبے میں اختراعی سوچ کے فقدان کی وجہ سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

انڈونیشیا کے پہاڑی علاقوں کے سیڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے کھیت
انڈونیشیا کے پہاڑی علاقوں کے سیڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے کھیتتصویر: Rüdiger Siebert

خاص طور پر غریب انسانوں کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ امدادی ادارے اوکسفیم انٹرنیشنل نے اپنی یکم جون کی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگلے بیس برسوں کے اندر اندر اَشیائے خوراک کی قیمتوں میں دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور یوں پہلے سے بھوک کے شکار انسانوں کے لیے حالات مزید سنگین شکل اختیار کر جائیں گے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والی نئی فصلیں دریافت کی جائیں، جو زیادہ پیداوار دے سکیں تاکہ بھوک کے سنگین مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ اس طرح کی نئی فصلوں پر آسٹریلیا کے شہر کینبرا کی ایک لیباریٹری میں بھی برسوں سے تحقیق ہو رہی ہے۔ وہاں جدید ترین آلات کی مدد سے سینکڑوں بیجوں پر نت نئے موسمی حالات کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

کسان چاول کی فصل کاشت کر انڈونیشی رہے ہیں
کسان چاول کی فصل کاشت کر رہے ہیںتصویر: Siebert

آسٹریلیا کی کامن ویلتھ سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (CSIRO) کے سائنسدان بوب فربینک کے مطابق یہ دور ڈیجیٹل زراعت کا دور ہے۔ اس لیبیاریٹری میں تین میٹر لمبی ایک پلانٹ اسکیننگ مشین ہے، جس میں نصب سہ جہتی لیزر ریڈار اور دیگر آلات ہر بیج اور پودے کے سائز، اُس کے بڑھنے کے عمل اور اُس کے لیے مطلوبہ پانی کی مقدار کا صحیح صحیح حساب لگا سکتے ہیں۔ بعد ازاں فصل کی کاشت کے لیے اُس بیج کا انتخاب کیا جاتا ہے، جس کی کارکردگی باقی تمام بیجوں سے بہتر رہی ہو۔ زیادہ زور گندم اور چاول کے بیجوں پر دیا جا رہا ہے۔

عالمی آبادی اس سال کے آخر تک 7 ارب کی حد کو پہنچنے والی ہے اور اس صدی کے وسط تک 9 ارب تک پہنچ چائے گی۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق سن 2050ء تک مزید دو ارب انسانوں کے لیے خوراک درکار ہو گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ خوراک کی پیداوار میں 70 فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں