1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ پٹی میں ہلاک شدگان کی تعداد 700 سے تجاوز کرگئی

افسر اعوان8 جنوری 2009

غزہ پٹی پراسرائیلی فضائی اور زمینی حملے جمعرات کے روز 13ویں دن میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس خونریزی میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 700 سے تجاوزکر گئی ہے اور زخمیوں کی مجموعی تعداد بھی 2800 کے قریب ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/GU6e
اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملے 27 دسمبر کے روز شروع کئے تھےتصویر: AP

اس تنازعے میں اگرچہ اب تک محض تین گھنٹے کی فائر بندی دیکھنے میں آئی ہے جو بدھ کی دوپہر سے لے کر سہ پہر تین بجے تک ممکن ہوسکی۔ اس کی وجہ غزہ کے متاثرہ شہریوں کو امدادی سامان کی فراہمی تھی۔ تاہم اس تنازعے میں فریقین کے ایک دوسرے پر حملوں اور مسلسل ہلاکتوں کو روکنے کے لئے بین الاقوامی برادری کی کوششیں بھی ابھی تک جاری ہیں۔

ان کاوشوں کے جمعرات کی صبح تک طویل المدتی بنیادوں پر کوئی بہت حوصلہ افزاء نتائج تو سامنے نہیں آئے پھر بھی ان امیدوں کو کچھ تقویت بہرحال ملی ہےکہ عالمی برادری خطے میں اس نئی جنگ کو شاید جلد ہی رکوا سکے گی۔

Krieg in Gaza PANO
اقوام متحدہ کے سکول پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کے تدفین کےموقع پرجبلیہ کے مہاجر کیمپ میں جمع سوگوار فلسطینی شہریتصویر: AP

مشرق وسطیٰ کا کئی روزہ دورہ کرنے والے یورپی یونین کے فرانس، سویڈن اور چیک جمہوریہ کے وزرائے خارجہ کے جس وفد نے اتوار کے دن سے اپنا کئی ملکی دورے پر مشتمل ثالثی مشن شروع کیا تھا، اس کے بارے میں اس وفد کے ہمراہ جانے والی یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کمشنر بینیٹا فیریرو والڈنر بدھ کی شام تک بس اتنا ہی کہہ سکیں کہ وہ اور ان کے ساتھی اسرائیلی وزیر اعظم اولمیرٹ کو اس امر پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے کہ یوریی کمشن کا ایک نمائندہ اسرائیلی وزارت دفاع میں اس وزارت کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے غزہ پٹی کے شہریوں کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کو مربوط بنانے کا کام کرے گا۔

یورپی یونین کےمشرق وسطیٰ میں ثالثی کی کوششیں کرنے والے اسی وفد میں شامل یونین کے موجودہ صدر ملک چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ کاریل شوارسین بیرگ نے یورپی سفارتی کوششوں کے نتائج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

"ہم فوری طور پر جنگ بندی کی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں اس کے لئے تیاری کرنا ہوگی اور خطے کے تمام ممالک کے ساتھ مل کر وہ معلومات حاصل کرنا ہوں گی جو اس بارے میں ہماری رہنمائی کرسکیں کہ ہماری اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔"

Krieg in Gaza
رفاہ کے علاقے میں ایک فلسطینی اسرائیلی جنگی طیارے سے گرایا جانے والا ایک پمفلٹ پڑھتے ہوئےجس میں فلسطینی شہریوں کو جمعرات کی صبح تک کیمپ کالی کرنے کے لئے کہا گیا تھاتصویر: AP

اسرائیل کو فائر بندی پر راضی کرنے کے لئے مصر اور فرانس نے مل کر اب تک جوعبوری تجاویز پیش کی ہیں ان پر خود اسرائیل نے تو محتاط رد عمل کا اظہار کیا ہے تاہم امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے ان تجاویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نےاسرائیلی اور عرب وزراء سے اب تک اس سلسلے میں جو تبادلہ خیال کیا ہے اس سے بھی یہی بات سامنے آئی ہے کہ اس تنازعے میں اہم ترین بات کسی نہ کسی طرح آگے بڑھنا ہے۔

اسی دوران غزہ پٹی کے علاقے میں اقوام متحدہ کے ایک سکول پر اسرئیلی راکٹ حملوں میں 40 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت کے بارے میں اقوام متحدہ کے ذرائع کے بقول اسرائیلی حکومت نے اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ جبلیہ کے مہاجر کیمپ میں اس سکول پر حملے سے پہلے اس عمارت سے فلسطینی عسکریت پسندوں نے کوئی راکٹ حملے نہیں کئے تھے۔

Krieg in Gaza
رفاہ کے مہاجر کیمپ پر فضائی حملوں کے نتیجے میں تباہی کا ایک منظرتصویر: AP

اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے اس اسکول پر حملے کی چھان بین کا مطالبہ کررہا تھا کیونکہ شروع میں اسرائیل نے مسلسل یہ مئوقف اختیار کر رکھا تھا کہ اس اسکول سے عسکریت پسندوں نے راکٹ حملے کئے تھے جن کے جواب میں وہاں توپ خانے سے گولہ باری کی گئی جو بیسیوں سویلین باشندوں کی ہلاکت کا باعث بنی۔

غزہ پٹی کے علاقے میں کسی نہ کسی طرح فائر بندی کو ممکن بنانے کی اقوام متحدہ میں جاری کوششوں کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں اب سفارتی مذاکرات میں بات واضح اختلاف رائے تک پہنچ گئی ہے۔ مغربی ملکوں کی خواہش ہے کہ اس بارے میں سلامتی کونسل محض ایک بیان جاری کرے جبکہ عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے پر سلامتی کونسل کو ایک باقاعدہ قرارداد منظور کرنی چاہیے۔

مشرق وسطیٰ میں خونریزی جمعرات کے روز اپنے 13 ویں دن بھی جاری ہے اور15 رکنی سلامتی کونسل ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ اسے اس بارے میں کوئی بیان جاری کرنا چاہیے یا کوئی قرارداد منظور کرنی چاہیے۔