1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عورت کی شکتی سے مرد خائف ہیں‘

30 اپریل 2018

امریکی شہر ڈيلس ميں احمديہ مسلم کميونيٹی کی خواتين نے ايک انٹرفيتھ سمپوزيم کا اہتمام کيا۔ اس بین المذاہب سمپوزیم میں’’خواتین کے عطائے اختیار میں مذہب کے کردار‘‘ پر بحث ہوئی۔

https://p.dw.com/p/2wuRt
USA Dallas - Event: "Interfaith women empowerment Ahmaddiyya Muslim Community
تصویر: DW/M. Kazim

اس مباحثے کا مقصد مختلف مذاہب ميں خواتين کے کردار اور انکی اہميت سے لے کر انہیں معاشرے میں زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جانے کے عمل پر مختلف زاویے سے روشنی ڈالی گئی۔ اس اجلاس سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتين نے خطاب کيا۔

’ ثنا چیمہ کے لیے انصاف‘ کی کھوج میں قبر کشائی

ان خواتين کا تعلق بھائی مذہب، ہندومت،عيسائیت اور اسلام سے تھا۔  اس تقريب ميں مذکورہ مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس بارے میں کُھل کر بات چیت کی کہ تمام ادیان خواتین کو کیا درجہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب عورت کو کس حد تک با اختیار بناتا ہے،عورت کا معاشرتی درجہ آج ماضی کے مقابلے میں بلند ہے يا نہيں؟

اس اہم سمپوزيم کی آرگنائيزر، عصمت محمود کے بقول، "عورت ہونے کے ناتے سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس موضوع کو اجاگر کريں ۔ ہر مذہب نے عورت کو ايک اہم مقام ديا ہے۔ امریکا ميں اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مختلف مذاہب کی خواتين مل کر متحدہ ہوکر اپنی طاقت اپنے اختیارات پر بات کریں اور اس کے بارے میں ایک دوسرے کے اندر آگاہی و شعور بیدار کریں  اور اسے استعمال کریں"۔

ملالہ یوسفزئی کی کہانی، جرمن بچوں کے لیے مشعل راہ

اپنی تقرير کے دوران عيسائیت کی پیرو کار ريورنڈ ايمی مور نے کہا، "مذہب اور دين دومختلف چيزيں ہيں اور ميں اپنے عيسائی دين ميں اپنے آپ کو بہت مضبوط محسوس کرتی ہوں۔ ميرے دين نے عورت کو اس وقت اہميت اور اہم زمہ داری سونپی جب دور جاہلیت ميں کوئی عورتوں سے سرعام بات کرنا بھی گوارہ نہيں کرتا تھ"۔

بہائی مذہب کی ترجمانی کرتے ہوئے رنے کيفان نے اس بات پر زور ديا کہ ’’عورت کے اوپر ايک بہت بڑی ذمہ داری يہ ہے کہ اسے آنے والی نسل کی تمام ضروريات کا خيال رکھنے سے لے کر اس کی روحانی پرورش تک کرنا پڑتی ہے اور يہ اس بات کی گواہی ہے کہ عورت ہر لحاظ سے مضبوط اور با صلاحیت ہے۔ ہمارا مذہب عورت کو سماجی، سياسی اور مالی طور پر مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا حق اور ہمت ديتا ہے۔"

ہندو مت سے تعلق رکھنے والی روپم شايام نے، "شکتی" کی ديوی کے کردار اور اس کی اہميت پر زور ديتے ہوئے کہا کے يہ طاقت ہر عورت کے اندر پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا،’’ شکتی ہمارے اندر ہے۔ جب عورت کو اسکی ضرورت پڑتی ہے يہ خود بخود باہر آ جاتی ہے اور سخت ترين حالات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر تی ہے۔‘‘ ہندو مذہب ميں ديوی کی اہميت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ صديوں پہلے اس شکتی کی جو طاقت تھی اس سے آج کے دور ميں مرد خائف نظر آتے ہيں اس لیے اسے دبانے کی کوشش کرتے ہيں۔ اس سلسلے ميں عورت کو اپنی تمام تر طاقت کا استعمال کرنا چاہيے۔‘‘

سمپوزیم کے شرکاء ميں ذيادہ تر تعداد خواتين کی تھی تاہم چند مردوں نے بھی اس بحث میں حصہ لیا تصویر: DW/M. Kazim

ایک نو مسلم خاتون، ٹمارہ روڈنی نے عيسائیت سے مذہب اسلام ميں داخل ہونے کے اپنے تجربات کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ یہ ايک طويل سفر تھا۔ انہوں نے بتايا کہ مغرب ميں رہتے ہوئے دائرہ اسلام ميں داخل ہونا مشکل تھا کيونکہ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کافی حد تک منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ خاص طور سے عورتوں کے مقام اور حقوق کے حوالے سے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے خود تحقيق کی تب انہيں اندازہ ہوا کہ اسلام عورت کو برابری کا رتبہ اور اہميت دیتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کلچر کو مذہب سمجھتے ہيں اور یہ غلط ہے۔ آج کی عورت انفارميشن کے دور ميں ہوتے ہوئے بھی اپنے حقوق کے ليے لڑ رہی ہے۔ دور جہالت جيسا کل تھا ويسا ہی آج بھی ہے۔

اس سمپوزیم کے شرکاء ميں ذيادہ تر تعداد خواتين کی تھی تاہم چند مردوں نے بھی اس بحث میں حصہ لیا اور سوالات بھی کیے اور اس طرح یہاں موجود مرد بھی اس مکالمے کا حصہ بنے۔ امريکا ميں مذہبی بنيادوں پر لوگ نزديک آتے دکھائی دے رہے ہيں۔ آج کی فضا ميں لوگ متجسس ہيں اور بین المذاہب تقريبات جیسے کے افطار پارٹيوں تک محدود رہنے کی بجائے اب ہفتہ وار  ہونے والی بین المذاہب تقاریب اور بحث و مباحثے کا حصہ بن رہے ہیں۔

 'اگر بیٹیاں زندہ بچیں گی تو انہیں پڑھائیں گے‘