1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علاج اور ادویات : لاکھوں مریضوں کی جان بچ سکتی ہے

3 نومبر 2009

روزانہ تیس ہزار بچے مختلف اقسام کی بیماریوں کا شکار ہو کر لُقمہ اجل بن جاتے ہیں- افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان اَموات کا سبب بننے والے امراض کا علاج موجود ہے اور ان سے بچا بھی جا سکتا ہے-

https://p.dw.com/p/KMU2
تصویر: picture-alliance / dpa

امیر ممالک میں کم سے کم انفیکشن والی بیماریوں،یعنی عفونت کے بہت معمولی امکانات کی حامل، کو بھی نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں بہت معیاری ادویات اور معالجے کی سہولیات فراہم ہیں۔ ایسا غریب اور پسماندہ ممالک میں نہیں ہے۔ وہاں ہر سال لاکھوں انسانوں کی اَموات ایسی بیماریوں کے سبب واقع ہو جاتی ہیں، جو جان لیوا نہیں ہوتیں۔ تاہم انسانی جانوں کا تحفّظ تب ہی ممکن ہے جب انہیں علاج و معالجے کے ساتھ ساتھ ادویات کی سہولت بھی میسر ہو۔

ان حقائق کے پیش نظر حال ہی میں جرمن دارالحکومت برلن منعقدہ پہلی عالمی صحت کانفرنس میں موجود متعدد فارماسوٹیکل یا ادویات ساز کمپنیوں کے اہلکاروں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تعاون اور ذمہ داری کا ثبوت دیں۔

دنیا بھر میں ہر سیکینڈ پرایک بچّہ ملیریا کا شکار ہوکردم توڑتا ہے۔ ہرسال ایسی بیماریوں، جن کا بہت آسان علاج موجود ہے یا جن سے بآسانی بچا جا سکتا ہے، کے سبب تیس ہزار سے زائد بچّے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان خوفناک اعداد وشمار کے باوجود ماہرین طب اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ بیکٹیریا یعنی جراثیم اور وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مثلاً اب ٹائفائیڈ اور ملیریا کےکیسس بہت کم سامنے آتے ہیں۔ خاص طور سے کینیا میں ملیریا جیسی بیماری اب بہت کم ہی پائی جاتی ہے۔ بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ غریب ملکوں میں کم انفیکشن والی بیماریوں پر ایک عرصہ پہلے ہی قابو پالیا جاسکتا تھا تاہم وہاں کے عوام تک ان کو درکار ادویات پہنچانا ضروری تھا۔

برلن میں قائم انفکشس ڈیزیزز یا عفونت والے امراض کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سٹیفن کاؤفمن کا کہنا ہے کہ وبائی امراض کے خلاف روک تھام کے موثر امکانات موجود ہیں۔

Papillomavirus in Zellen von Gebärmutter
غریب اور ترقی پزیر ممالک میں صحت اور علاج کی سہولتوں کی خاصی کمی ہےتصویر: picture-alliance / OKAPIA KG, Germany

’’چند یماریوں کے خلاف ہمارے پاس ٹیکے موجود ہیں، چند دیگر عارضوں کے علاج کے لئے ہمارے پاس ادویات بھی ہیں۔ پلیگ یا اس جیسی دیگر وباؤں کے شکار مریضوں کو ہم ٹریٹ تو کر سکتے ہیں تاہم ان کا اعلاج نہیں۔ اس میں بہت سے ممالک کی غربت کا ایک بہت بڑا ہاتھ ہے۔ خاص طور سے HIV ،AIDS، ٹی بی اور ملیریا جیسے امراض غریب اورپسماندہ ملکوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔‘‘

اس قسم کی بیماریوں کے خلاف ادویات جیسے کہ اینٹی بیوٹکس اور اس جیسی دیگر ادویات موجود ہیں تاہم بہت کم لوگ ہی انہیں خرید سکتے ہیں۔

پاؤل سومر فیلڈ ٹی بی کے مریضوں کی امداد کے سب سے اہم ادارے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ٹی بی کے مریضوں کے مرض کی تشخیص ہو بھی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ غریب ممالک میں ان مریضوں کے پاس نا تو ڈاکٹر کے علاج اور نا ہی ان کی زندگی بچانے کے لئے اشد ضروری ادویات خریدنے کے وسائل موجود ہوتے ہیں۔

’’جس طرح کی مراعات اور سہولیات ہمیں میسر ہیں،غریب ممالک کے بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہیں- ہماری ذرا سی طبعیت خراب ہوہم ڈاکٹروں کے پاس جا سکتے ہیں، ضرورت پڑنے اور ڈاکٹر کے مشورے سے خود کو ماہریا اسپیشلسٹ سے طبی جانچ کراسکتے ہیں- ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہر کسی کے لئے ہے، لیکن ایسا نہیں ہے-دُنیا میں بہت کم انسانوں کو یہ سہولیات میسر ہیں‘‘

Impfung
بہتر احتیاطی تدابیر اور بروقت علاج سے لاکھوں افراد کی زندگی بچائی جا سکتی ہےتصویر: AP

ٹیوبر کلوسس یا ٹی بی کے علاج کے ماہر سومرفیلڈ کے مطابق دُنیا بھر میں ٹی بی کے مریضوں کی کل تعداد کا ایک تہائی حصّہ بھی زیرعلاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال کم از کم 2 ملین انسان ایسے عارضوں کا شکار ہو کر مرجاتے ہیں۔ چاہے یہ علاج کتنا ہی طویل اوردشوار گزار کیوں نہ ہو؟ایسی وجہ سے ریسرچرز، ڈاکٹرز، سیاستدان اور مختلف ادارے فارما انڈسٹری یا ادویات سازی کی صنعت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

انہیں اس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے- وبائی حیاتیات کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ڈائرکٹر بھی اس سلسلے میں باہمی تعاون میں اضافے کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔

’’ادویات سازی کی صنعت کو ہمیشہ مارکیٹ کے اصولوں کو ملحوظ نظر رکھنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ محض اقتصادی محرک ہی نہیں بلکہ سماجی صورتحال کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے۔‘‘

سن دو ہزار سات میں سوئٹزرلینڈ میں ایک نان پروفٹ انسٹیٹیوٹ،بائیو ٹک فارما کمپنی وجود میں آئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد مختلف امراض کے خلاف ٹیکے تیار کرنا تھا- اس کے سربراہ Rino Rappuoli ہیں۔ انہیں ٹیکے تیار کرنے، خاص طور سے انفلوئنزا اور کالی کھانسی جیسے امراض کے خلاف ٹیکوں کی ایجاد کا کئی برسوں کا تجربہ ہے۔

’’یہ انسٹیٹیوٹ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے نہیں بنایا گیا- ہم یہاں ٹیکوں کی ایجاد کے اہم کام پر توجہ دیتے ہیں،ایسی بیماریوں کے خلاف ٹیکے، جنہیں بہت زیادہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ان ٹیکوں کے لئے مارکیٹ بمشکل ملتی ہے۔ ہماری ریسرچ کا مرکزی موضوع Salmonell Bacterias، سمیت ایسے جراثیم ہیں جو فوڈ پوائزنگ یا انتڑیوں کی سوزش کا سبب بنتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایشیا اور افریقہ میں Salmonell Bacteria کے شکار افراد کی تعداد HIV-AIDS ، ٹی بی اور ملیریا کے مریضوں سے زیادہ بنتی ہے۔‘‘

دُنیا بھر میں جن بیماریوں کو بہت زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے، ان میں ملیریا اور ٹی بی شامل ہیں، جو ہر سال کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی بیماریوں میں ڈینگی فیور، کالی کھانسی اور نیند کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بیماری بھی جان لیوا نہیں ہے۔ بشرطیکہ ان امراض کے شکار انسانوں کو صحیح وقت پر ادویات اور مناسب علاج میسر ہو!

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : گوہر نذیر