1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عفرین میں کیا اب گوریلا جنگ ہو گی؟

18 مارچ 2018

ترک افواج نے شامی علاقے عفرین میں کرد جنگجوؤں کو پسپا کرتے ہوئے عفرین شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ترک فورسز گزشتہ دو ماہ سے اس علاقے میں کارروائی میں مصروف تھیں۔ کرد جنگجوؤں نے خبردار کیا ہے کہ اب وہ گوریلا ہو گی۔

https://p.dw.com/p/2uXt1
Türkische Armee rückt in Afrin ein
تصویر: Reuters/K. Ashawi

آج بروز اتوار ترک افواج نے کامیاب پیشقدمی کرتے ہوئے شامی ڈسٹرکٹ عفرین کے وسطی شہر عفرین کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ میڈیا پر جاری ہونے والی فوٹیج کے مطابق اس شہر کے مرکزی علاقے میں ترک افواج نے ترکی کا پرچم بلند کر دیا ہے۔

عفرین کے بڑے حصے پر ترک افواج کا قبضہ

شامی حکومت اور کُرد فورسز ترک آپریشن کے خلاف متحد

عفرین آپریشن: دو ترک فوجی ہلاک، ہیلی کاپٹر تباہ

شامی خانہ جنگی میں پیدا ہونے والے

گزشتہ دو ماہ سے جاری اس لڑائی میں ترک افواج کو مقامی شامی ملیشیا گروہوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ عفرین کی اس لڑائی کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ شہری متاثر ہوئے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار کے دن کہا کہ عفرین شہر کے وسطی علاقے کا آج صبح ساڑھے آٹھ بجے کنٹرول سنبھال لیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس دوران کرد جنگجو بڑے پیمانے پر ’دم دبا کر بھاگ گئے‘ ہیں۔

اس کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا کہ اب ترک فورسز شمالی شام کے ایسے دیگر علاقوں میں بھی کارروائی کریں گی، جہاں کرد باغی فعال ہیں۔ دوسری طرف ترک حکومت کے ایک ترجمان نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ تاہم عفرین میں دہشت گرد ختم ہو چکے ہیں۔‘‘

ترک فورسز کو سرحدی علاقے میں یہ کامیابی ایک ایسے وقت میں ملی ہے، جب شامی خانہ جنگی رواں ہفتے ہی آٹھویں برس میں داخل ہوئی ہے۔ انقرہ حکومت شمالی شامی علاقے عفرین میں فعال کرد پروٹیکشن یونٹ YPG کو کردستان ورکرز پارٹی کا حامی قرار دیتی ہے۔

ترکی کا الزام ہے کہ یہ باغی سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں، اس لیے شامی سرحدی علاقوں میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن ناگزیر ہو چکا تھا۔

شامی علاقے عفرین میں کرد جنگجوؤں کی اس شکست کو ان کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم کئی سکیورٹی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ترک فورسز اور اتحادی ملیشیا گروہوں نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے تاہم کرد جنگجو طاقت جمع کرتے ہوئے جوابی کارروائی کر سکتے ہیں۔

عفرین کے رہائشیوں نے نیوز اداروں کو بتایا ہے کہ بظاہر کرد باغی ترک فورسز سے لڑائی کے بغیر ہی شہری علاقے سے فرار ہوئے ہیں۔ شامی حزب اختلاف کے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق بیس جنوری سے شروع ہونے والے عفرین آپریشن کے دوران پندرہ سو کرد جنگجو مارے گئے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق اس لڑائی میں دو سو اسی سے زائد شہری بھی لقمہ اجل بنے تاہم انقرہ حکومت ان خبروں کو مسترد کرتی ہے۔

دوسری طرف شامی کردوں نے کہا ہے کہ عفرین کی لڑائی کا ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا گیا ہے، جب ترک فورسز نے حامی ملیشیا گروہوں کے تعاون سے شمالی شام کے شہر عفرین کا قبضہ سنبھال لیا ہے۔ اس علاقے کی کرد انتظامیہ نے اتوار کے دن کہا ہے کہ اب جنگجو براہ راست لڑائی کے بجائے گوریلا جنگ شروع کریں گے۔

عفرین ایگزیکٹیو کونسل کے شریک چیئرمین عثمان شیخ عیسیٰ نے کہا کہ ان کی فورسز علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ترک اہداف کو نشانہ بنائیں گی۔ دو ماہ کی لڑائی کے بعد ترک فورسز اتوار کے دن ہی عفرین میں ان کرد باغیوں کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

ع ب / ش ح / اے ایف پی