1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عسکری دھڑا تحریک طالبان پاکستان سے الگ

عاطف توقیر5 ستمبر 2014

حال ہی میں تحریک طالبان پاکستان میں جنم لینے والا لشکر احرار نامی ایک عسکری دھڑا اس تنظیم سے الگ ہو گیا ہے۔ اس گروہ کی قیادت کی جانب سے جمعرات کے روز اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1D7Ny
تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے دھڑے کے لیڈرانتصویر: Thir Khan/AFP/Getty Images

جمعرات کے روز اس دہشت گرد گروہ کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں اپنے نوجوان کمانڈر کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ دھڑا تحریک طالبان کی چھتری سے الگ ہو کر اپنی شناخت کے ساتھ کارروائیاں کرے گا۔

اس اقدام سے تحریک طالبان میں موجود درڑایں واضح ہوتی جا رہی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں ایک امریکی ڈرون حملے میں اس عسکری تنظیم کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مولانا فضل اللہ نے اس تنظیم کی قیادت سنبھالی تھی، تاہم فضل اللہ سے بظاہر اس گروہ میں موجود مختلف اکائیوں کا مجمتع رکھنا دکھائی نہیں دیتا۔

اے ایف پی کے مطابق ’ملا ریڈیو‘ کے نام سے جانا جانے والے مولانا فضل اللہ پاکستان علاقے وادی سوات میں سن 2007 تا 2009 متحرک رہا، تاہم وہاں پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنے ریڈیو پر یہ عسکریت پسند یہ اعلان کیا کرتا تھا کہ اس کے ساتھی اگلے روز کسے موت کے گھاٹ اتارنے والے ہیں۔

Taliban in Pakistan
تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کا ایک سابقہ فوٹو، ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والا حکیم اللہ محسود سامنے ہےتصویر: Reuters

ٹی ٹی پی میں لشکر حرار کا قیام اس وقت ہوا تھا، جب رواں برس فروری میں عمر خالد خراسانی کی قیادت میں اس دھڑے کے عسکریت پسندوں نے سن 2010ء سے قید 23 پاکستانی سپاہیوں کے سر قلم کیے تھے۔

خراسانی اس سے قبل احرار الہند نامی دہشت گرد گروہ کی قیادت کرتا تھا اور اس کے عسکریت پسند رواں برس پاکستانی فوج اور تحریک طالبان کے درمیان فائربندی کے دوران مختلف مقامات پر حملے کرتے رہے، جن میں سے ایک دارالحکومت اسلام آباد کی ایک عدالت میں 12 افراد کا قتل بھی تھا۔

مبصرین کے مطابق خراسانی کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ ایمن الظواہری سے گہرے روابط ہیں۔ اس گروہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں فضل اللہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ذاتی مقاصد کے حصول پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اس گروہ کے ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے اردو میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا گیا ہے، ’’مجاہدین کے قاتل فضل اللہ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس نے ایسے لوگوں کے خلاف شریعہ کے مطابق اقدامات کیوں نہیں کیے؟ ‘‘

واضح رہے کہ احسان اللہ احسان اس سے قبل مولانا فضل اللہ کے ماتحت کام کرتا رہا ہے۔

اس کا مزید کہنا تھا، ’ہم مولانا فضل اللہ اور اس کے ساتھ موجود موقع پرستوں کی کی رکنیت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں۔‘

یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی فوج ان دنوں شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑی عسکری کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے تحریک طالبان کے کمانڈ اینڈ کنڑول ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔