1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب دنیا کا شام کے ساتھ تجارتی روابط ختم کرنے کا فیصلہ

28 نومبر 2011

عرب ریاستوں کی جانب سے شام کے مرکزی بینک کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور سرمایہ کاری نہ کرنے کے فیصلے کے بعد شام کی اقتصادی صورتحال کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/13IVN
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاستصویر: picture-alliance/dpa

قاہرہ میں منقعدہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے اثاثہ جات کو منجمد کرنے اور شامی اعلٰی عہدیداروں کی جانب سے عرب ریاستوں کے سفر پر بھی پابندی عائد کرنے پراتفاق کیا گیا۔ شام میں بد امنی کی وجہ سے اقتصادی صورتحال پہلے ہی سےشدید مشکات سے دوچار ہے اور اس سے سیاحت کا شعبہ سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے، جو کہ بیرونی محصولات کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں عدم تعاون کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

Syrien Präsident Baschar al Assad
شامی صدر بشار الاسدتصویر: picture-alliance/abaca

یورپی یونین کی جانب سے بھی خام تیل کی درآمد پر پابندی کے بعد شام کی اس شعبے میں ماہانہ 400 ملین ڈالرز کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شام کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ یہ چیز بھی واضح کی گئی کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے گا، جن سے عام شامی افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔

"اکنامک انٹیلی جنس یونٹ" سے وابستہ ماہر اقتصادیات کرس فلپس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ شام کے مرکزی بینک کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرنے سے شامی تاجروں کو برآمدات اور درآمدات کے شعبے میں مشکل صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ لبنان اور عراق کی جانب سے ان پابندیوں پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے۔

Syrien Proteste gegen Präsident President Bashar Assad
شامی صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa

لبنان کے شام کے ساتھ دیرینہ سیاسی اور تجارتی تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عراق کی طرح لبنان نے بھی شام پر پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔ بغداد حکومت نے اجلاس سے قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ شام پر کسی قسم کی بھی پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گی۔ لبنان کے وزیر خارجہ عدنان منصور نے گزشتہ ہفتےگفتگو کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ بیروت کا کوئی بھی فعل شام کے خلاف نہیں جائے گا۔ اس کے برعکس وزیراعظم نجیب متقی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت عرب لیگ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرے گی۔

Jordan König Abdullah II gibt Rechte an das Parlament ab
اردن کے شاہ عبداللہ نے شامی صدر بشار الاسد پر اپنا عہدہ چھوڑنے پر زور دیا ہےتصویر: dapd

اردن کے ایک بینکار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ابھی تک پوری صورتحال واضح نہیں ہوئی ہے لیکن ان اقدامات سے شام کے ساتھ کاروباری روابط رکھنا بے حد دشوار ہو جائیں گے۔ سعودی عرب کے بھی ایک معروف بینک نے اپنے حصص شام اور لبنان کے بینکوں کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس حوالے سے موقف اپنایا ہے کہ شام کے مالیاتی بحران کے باعث شراکت داری کا سلسلہ مزید نہیں چل سکتا۔

اردن کے شاہ عبداللہ عرب دنیا کے وہ واحد رہنما ہیں، جنہوں نے شامی صدر بشار الاسد پر اپنا عہدہ چھوڑنے پر زور دیا ہے۔ اس حوالے سے اردن کے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد دراصل شامی صدر پر دباؤ بڑھانا ہے۔ ترکی کے ساتھ شام کی تجارت کا سالانہ حجم 2.5 بلین ڈالر بنتا ہے تاہم ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انقرہ حکومت دیگر عرب ممالک کے فیصلے کی پاسداری کرے گی۔

رپورٹ: شاہد افراز خان

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں