1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے الیکشن، مقتدیٰ الصدر کی ’حیران کن برتری‘

14 مئی 2018

عراقی انتخابات کے ابتدائی اور جزوی نتائج کے مطابق مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کا سیاسی اتحاد برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ دوسرے نمبر پر ایرانی حمایت یافتہ ہادی العامری جبکہ تیسرے نمبر پر وزیر اعظم حیدر العبادی کا سیاسی اتحاد ہے۔

https://p.dw.com/p/2xflc
Irak Parlamentswahlen Plakat von Muqtada al-Sadr bei Feier auf dem Tahrir-Platz
تصویر: picture alliance/AP/H. Mizban

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراق میں بارہ مئی بروز ہفتہ منعقد کیے جانے والے پارلیمانی انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم حیدر العبادی کا سیاسی اتحاد تیسرے نمبر پر ہے۔ ان ابتدائی نتائج کو ’غیرمعمولی‘ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ عوامی جائزوں میں العبادی کی جیت کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔

عراق ميں عام انتخابات مگر تبديلی کی اميد محدود

اگر امریکا جوہری معاہدے سے نکلا تو مشرق وسطیٰ کا امکانی منظر

عراق جنگ، پندرہ برس بیت گئے

ابتدائی جزوی نتائج کے مطابق مقتدیٰ الصدر کا سیاسی اتحاد ’ایم ٹی آر‘ اور اس کی کمیونسٹ الائنس عراق کے اٹھارہ صوبوں میں سے چھ میں سبقت لیے ہوئے ہیں جبکہ دیگر چار صوبوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔

موصل میں زندگی کی رونقیں لوٹ رہی ہیں

سن دو ہزار تین میں امریکی عسکری مداخلت پر عسکری جدوجہد کرنے والے عراقی فوجی کمانڈر مقتدیٰ الصدر نے اس الیکشن کی مہم میں بدعنوانی کے خلاف مہم شروع کی تھی۔

اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مقتدیٰ الصدر نے خود کو ایران سے دور کیا ہے جبکہ سعودی عرب سے قربت اختیار کی ہے۔ عراق میں اسلامک اسٹیٹ کی مکمل پسپائی کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہونے والے اس الیکشن میں اب مقتدیٰ الصدر کی کامیابی پر گفتگو ہونا شروع ہو گئی ہے۔

اس الیکشن میں دوسرے نمبر پر سابق جنگجوؤں پر مشتمل سیاسی اتحاد ہے جس کی قیادت ہادی العامری کر رہے ہیں۔ اس گروہ نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں اہم کردار کیا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق اس اتحاد کو چار صوبوں میں برتری حاصل ہے اور آٹھ صوبوں میں یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ عراق کے پیچیدہ الیکشن نظام کے باعث ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کون سی پارٹی حکومت سازی کرنے کے قابل ہو سکے گی۔

مقتدیٰ الصدر اس الیکشن میں بطور امیدوار میدان میں نہیں اترے تھے، اس لیے یہ یقینی ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ تاہم ناقدین کے مطابق وہ ’بادشاہ گر‘ ضرور ثابت ہوں گے۔ مبصرین کے مطابق عراق کی موجودہ صورتحال میں جو سیاسی اتحاد بھی حکومت سازی کرے گا، اسے متعدد مسائل کا سامنا ہو گا۔

اسلامک اسٹیٹ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے عراق میں جہاں بنیادی شہری ڈھانچہ تباہ ہوا ہے، وہیں اس ملک کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے۔ نئی حکومت کو ملک کی تعمیر نو اور بحالی کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر بٹے ہوئے معاشرے کو بھی متحد کرنا ہو گا۔

ساتھ ہی امریکا اور ایران کے مابین نئی کشیدگی کے باعث عراق کی داخلی سیاست بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کئی سیاسی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے مابین محاز آرائی کے نتیجے میں عراق ایک نئی مشکل کا شکار ہو سکتا ہے۔

ع ب /  ا ع / خبر رساں ادارے