عراق میں پر امن انتخابات ایک بڑی کامیابی
1 فروری 2009امریکی صدر باراک اوباما نے عراق میں صوبائی کونسلز انتخابات کے پر امن انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل عراق کے بہتر مستقبل کی راہ میں اُٹھائے جانے والا اہم قدم ہے۔ 2005ء کے بعد یہ سب سے بڑا انتخابی عمل تھا اور اس میں عوام کی بھاری اکثریت نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ انتخابات کے پر امن انعقاد کے لئے ملک میں بڑے پیمانے پر حفاظت کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے۔اس سے قبل وزیر اعظم نوری المالکی نے صوبائی کونسلز کے لیے انتخابات کے پرامن انعقاد کو عراقی عوام کی فتح قرار دیا ہے۔
عراق میں صوبائی کونسلز کے لیے انتخابات کی ووٹنگ سخت سیکیوریٹی کے سائے تلے بغیر کسی ناخو شگوار واقعے کے مکمل ہوگئی ہے۔سال 2005کے بعد اس جنگ زدہ ملک میں یہ پہلے اہم انتخابات ہیں۔ صوبائی انتخابات میں 440نشستوں کے لیے 14,400سے زائد امیدوارمیدان میں اترے ہیں۔ انتخابات کے دوران امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے آٹھ لاکھ پولیس اور فوجی عراق میں تعینات کیے گئے ۔
اس خطرے کے پیش نظر کہ ایسے اہم دن کوئی دھماکہ یا کوئی اور دھشت گردانہ حملے نہ ہو جائے عراق کی تمام سرحدیں ایک روز قبل ہی یعنی جمعہ کو سیل کر دی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں ہوائی اڈے بند کر دئیے گئے تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، ٹرانسپورٹ پر پابندی کے باعث بغدادکی سڑکوں پر عراقی بچے سڑکوں پر فٹ بال کھیلتے نظر آئے۔
حالیہ عراقی انتخابات کے دوران سیکیورٹی صورتحال سے ایک جانب تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ سال 2011 میں امریکی فوجی دستوں کی عراق سے واپسی کے بعد مقامی سیکیوریٹی ایجنسیاں ملک کی باگ ڈور سنھبال پائیں گی یا نہیں تو دوسری طرف سیاسی تجزیہ نگار اسے ایک تجربے کے طور پربھی لے رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکےگا کہ عراقی عوام جمہوری طریقے سے ملک میں تبدیلی لانے کے لئے کس حد تک آمادہ ہیں۔
اقوام متحدہ کی مدد سےعراق میں صوبائی انتخابات منعقد کرائے جارہے ہیں اور تقریباً آٹھ سو بین الاقوامی مبصرین انتخابی عمل کا جائزہ لے رہے ہیں۔