1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں سولہ مہینوں میں کم از کم پندرہ ہزار شہری ہلاک

مقبول ملک13 جولائی 2015

عراق کے مسلح تنازعے میں گزشتہ برس جنوری سے لے کر اس سال اپریل کے آخر تک کم از کم پندرہ ہزار عام شہری ہلاک اور انتیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ بات اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FxtM
تصویر: picture alliance/AA

عراقی دارالحکومت بغداد سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے یہ بات آج پیر تیرہ جولائی کے روز جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتائی گئی۔ یہ رپورٹ عالمی ادارے کے مصدقہ اعداد و شمار پر مشتمل اس تازہ ترین دستاویز کا حصہ ہے، جو اقوام متحدہ کے عراق میں موجود مشن کی طرف سے ’عراق کے مسلح تنازعے میں شہری آبادی کے تحفظ سے متعلق رپورٹ‘ کے نام پر باقاعدگی لیکن وقفے وقفے سے جاری کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارے نے عراق میں ’غیر بین الاقوامی نوعیت کے‘ مسلح تنازعے کے دوران جنوری 2014ء سے لے کر اپریل 2015ء کے آخر تک جو مصدقہ اعداد و شمار جمع کیے، ان کے مطابق اس عرصے کے دوران جنگی تصادم اور خونریز حملوں میں عراق میں 14,947 عام شہری مارے گئے جبکہ زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 29,189 یا ہلاک شدگان کے مقابلے میں قریب دگنی رہی۔

اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال جنوری سے لے کر اس سال اپریل کے آخر تک عراق میں ہلاک یا زخمی ہونے والے عام شہریوں سے متعلق یہ وہ اعداد و شمار ہیں، جن کی باقاعدہ تصدیق بھی کی جا سکی۔ اس کے برعکس اگر ہلاک یا زخمی ہونے والے عام شہریوں سے متعلق غیر مصدقہ اعداد و شمار کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یہ تعداد کہیں زیادہ بنتی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف شہری ہلاکتوں اور عام شہریوں کے زخمی ہونے کے مصدقہ واقعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ لیکن اسی عرصے کے دوران عراق ہی میں ہزاروں کی تعداد میں عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جہادی اور عراقی سکیورٹی فورسز کے ارکان اور ان کے اتحادی ملیشیا جنگجو بھی مارے گئے، جن کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار سرے سے دستیاب ہی نہیں ہیں۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس تازہ رپورٹ کے لیے اعداد و شمار گزشتہ برس کے اوائل میں اس وقت جمع کرنا شروع کیے، جب اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کی طرف سے صوبے انبار کے کئی حصوں پر قبضے کے ساتھ مشرق وسطٰی کی اس ریاست میں اس دہشت گرد گروہ نے اپنی عسکری پیش قدمی کا آغاز کیا تھا۔

ان شہری اور عسکری ہلاکتوں کی تعداد میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا جب اسلامک اسٹیٹ یا داعش نے گزشتہ برس جون میں عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل سمیت ملک کے وسیع تر علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق عراق میں اس مسلح تنازعے کے آغاز کے بعد سے اب تک تین ملین سے زائد عام شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر اندرون ملک یا بیرون ملک مہاجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید