1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں جلاوطن ایرانیوں کے کیمپ میں بیسیوں ہلاکتیں

مقبول ملک2 ستمبر 2013

عراق میں جلاوطن ایرانی منحرفین کے ایک کیمپ میں ہونے والی خونریزی میں کم از کم 47 افراد مارے گئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔ عراقی وزیر اعظم المالکی نے ان خونریز جھڑپوں کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا یے۔

https://p.dw.com/p/19ZuA
تصویر: STR/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ بغداد سے شمال کی طرف واقع جلاوطن ایرانیوں کے کیمپ اشرف میں اس خونریزی کی اقوام متحدہ اور امریکا نے بھی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے تو ان ہلاکتوں کی رپورٹیں منظر عام پر آنے کے فوری بعد ہی بغداد حکومت سے جامع چھان بین کا مطالبہ کر دیا تھا۔

Lager Iranische Volksmudschahedin im Irak ARCHIVBILD 2012
وزیر اعظم المالکی اس خونریزی کی مکمل چھان بین کا حکم دے چکے ہیںتصویر: Ali Al-Saadi/AFP/Getty Images

ایرانی منحرفین کے گروپ مجاہدین خلق نے الزام لگایا ہے کہ اتوار کو پہلے اس کیمپ پر مبینہ طور پر عراقی فوج نے ایک مارٹر فائر کیا، جس کے کچھ دیر بعد وہاں پر تشدد واقعات شروع ہو گئے تھے۔

عراقی سکیورٹی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ ملکی فوج کے مسلح ارکان کو کیمپ اشرف کے مکینوں پر اس وقت اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑ گئی جب بہت سے مشتعل افراد نے کیمپ کے صدر دروازے کے پاس قائم ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر دھاوا بول دیا۔

سلامتی کے ذمہ دار ان عراقی ذرائع کے بقول اس کیمپ میں، جسے بغداد حکومت جلد از جلد بند کرنا چاہتی ہے، خونریز تصادم کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہو گئے جبکہ 38 جلاوطن ایرانی باشندوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اس کے برعکس ایرانی منحرفین کے گروپ مجاہدین خلق نے بتایا ہے کہ اس کیمپ میں اس کے قریب 100 ارکان رہائش پذیر تھے، جن میں سے 52 مارے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنے ایک بیان میں ان جھڑپوں میں 50 کے قریب ہلاکتوں کا ذکر کیا ہے۔

ان جھڑپوں کے بعد عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ایک مشیر علی الموسوی نے کہا کہ یہ دعوے بےبنیاد ہیں کہ عراقی سکیورٹی دستوں نے کیمپ اشرف میں رہنے والے جلاوطن ایرانیوں پر فائر کھول دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم المالکی اس خونریزی کی مکمل چھان بین کا حکم دے چکے ہیں۔

Camp Ashraf im Irak
کیمپ اشرف کا صدر دروازہ، فروری 2012ء میں لی گئی ایک تصویرتصویر: picture alliance/AP Photo

مجاہدین خلق ایرانی منحرفین کا ایک ایسا گروپ ہے جس کا نام امریکی محکمہء خارجہ نے ابھی گزشتہ برس ہی دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست سے خارج کیا تھا۔ ان ہلاکتوں کے بعد مجاہدین خلق نے دعویٰ کیا کہ کیمپ اشرف میں عراقی سکیورٹی اہلکاروں نے مبینہ طور پر چند مکینوں کو مشین گنوں سے فائرنگ کر کے اس طرح ہلاک کیا کہ تب ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پیچھے کمر پر بندھے ہوئے تھے۔

مختلف خبر ایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ بغداد سے شمال کی طرف واقع کیمپ اشرف میں ان بیسیوں ہلاکتوں کے بعد عراقی وزیر اعظم نے اپنا جو بیان جاری کیا، اس میں کہا گیا کہ بغداد حکومت مجاہدین خلق کے ارکان کی عراق سے ملک بدری کی خواہش مند ہے اور اسے اس سلسلے میں مدد کی ضرورت ہے۔

المالکی نے اپنے بیان میں مزید کہا، ’’مجاہدین خلق کے ان ارکان کا عراق میں قیام غیر قانونی ہے۔ بغداد حکومت ان کی ملک بدری کی خواہش مند ہے۔ تاہم ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ بغداد حکومت عراقی سرزمین پر ان جلاوطن ایرانی باشندوں کی موجودگی کے عرصے کے دوران ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کا تہیہ بھی کیے ہوئے ہے۔‘‘