1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق اور امریکی خدشات

7 مارچ 2010

انتخابات کے بعد کا وقت،عراق کے مستقبل کے لئے فيصلہ کن ثابت ہوگا کہ ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھتا ہے يا دوبارہ قوميتی جھگڑا شروع ہوجائے گا۔ امريکہ بھی عراقی داخلہ صورت حال پر تشویش رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/MM6y
تصویر: picture alliance/dpa

عراق ميں تازہ ترين خود کش حملوں سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں سلامتی کی صورتحال ابھی تک کس قدر نازک ہے۔ امريکی کونسل آف فارن ريليشنز کے اسٹيفن بڈل کا کہنا ہے کہ امريکہ ميں بعض لوگوں کا خيال ہے کہ عراق ايک بار پھر سن 2005 ء اور سن2006 ء کے سے، جنگ سے مشابہ حالات کی لپيٹ ميں آجائے گا، ليکن وہ نا اميد نہيں ہيں۔ تاہم بڈل نے يہ بھی کہا کہ امريکی حکومت جو يہ سمجھ رہی ہے کہ عراق کا مسئلہ حل ہوگيا ہے اور وہاں تشدد پھوٹ پڑنے کا امکان بہت کم ہے وہ غلطی پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ايک بہت خطرناک عبوری مرحلے سے گذررہے ہيں اور حالات کوئی بھی رُخ اختيار کرسکتے ہيں۔ انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد حکومت کی تشکيل ميں کئی مہينے لگ سکتے ہيں ،لنکن اہم ترين بات يہ ہے کہ عراقی اليکشن کو آزادانہ اور منصفانہ سمجھيں۔ اسٹيفن بڈل کے خیال میں اگر معاملہ بگڑ گيا اور اگر سنيوں نے يہ محسوس کيا کہ انتخابات ميں دھاندلی اور کرپشن ہوئی ہے اور اُن کے مفادات خطرے ميں ہيں، تو پھر حالات پلٹا کھا سکتے ہيں۔

Terrorchef Sarkawi bei Luftangriff getötet Pressekonferenz
عراقی وزیر اعظم بغداد میں امریکی سفیر کے ساتھتصویر: AP

امريکی صدر بارک اوباما يہ اعلان کرچکے ہيں کہ امريکی جنگی دستے اس سال اگست تک عراق سے واپس چلے جائيں گے۔ اس کے بعد، معاہدے کے مطابق جو 50000 امريکی فوجی عراق ميں واپس رہ جائيں گے، اُن کا کام عراقی فوجيوں کو تربيت دينا ہوگا۔ صدر اوباما کے منصوبے کے مطابق،اگلے سال کے آخر تک امريکہ کے سارے فوجی عراق سے واپس آچکے ہوں گے۔ تاہم عراق اور امريکہ کے مابين سمجھوتے ميں عراقی انتخابات کے لئے جنوری کی تاريخ مقرر کی گئی تھی۔ اس لئے يہ مطالبے کئے جارہے ہيں کہ امريکی فوجی انخلاء کی رفتار سست کردی جائے تاکہ عراق کی سلامتی کے لئے کوئی خطرہ پيدا نہ ہو۔ ليکن امريکی وزير دفاع رابرٹ گيٹس نے کہا کہ فوجی انخلاء ميں کسی قسم کی تاخير اُسی وقت ہو سکتی ہے جب عراق کی صورتحال انتہائی خراب ہوجائے۔ اس وقت ايسی صورتحال نہيں ہے۔

سابق امريکی صدر بش کے مشير اور صدر اوباما کی قومی سلامتی کونسل ميں بھی کچھ عرصے تک کام کرنے والے بريٹ ميک گرٹ کا کہنا ہے کہ عراق کے، معينہ راستے سے ہٹ جانے کی صورت ميں اگر اُسے اس پر واپس لانے ميں کاميابی نہيں ہوئی تو امريکہ کو مداخلت کرنا ہی پڑے گی۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ