1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عامر ذکی انتقال کر گئے

عابد حسین
3 جون 2017

پاکستان کے لیجنڈری گٹارنواز عامر ذکی انچاس برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ذکی انتہائی بلند پایہ ساز نواز تھے اور انہوں نے کئی ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2e4h1
USA Kalifornien Yellow Cloud Gitarre von Musiker Prince
تصویر: Getty Images/AFP/T. Boddi

عامر ذکی کے خاندان کے مطابق وہ جمعہ دو جون کو حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ وہ سن 1968 میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے۔

ذکی نے کم عمری ہی میں گٹار بجانا شروع کر دیا تھا اور بطور ٹین ایجر اُنہیں اس ساز کے بجانے میں کمال مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ ٹین ایجر عامر ذکی کو سب سے پہلے مشہور گلوکار عالمگیر نے دریافت کیا تھا۔ عالمگیر کو پاکستانی پوپ موسیقی کا ایک اہم گلوکار تصور کیا جاتا تھا۔

Symbolbild Gitarre
پاکستانی میوزک کے منظر نامے پر عامر ذکی کو گٹار نوازی میں ایک منفرد مقام حاصل رہاتصویر: Colourbox

عامر ذکی گٹار کے ساتھ عشق کرتے تھے اور انہوں نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیےاس ساز میں اپنے مزاج کے مطابق تبدیلیاں بھی پیدا کی۔ یہ اختراعات گٹار کی تاروں میں نہیں بلکہ اُس کی جسامت میں پیدا کی تھیں۔ وہ اپنے اختراع شدہ گٹار کو’فلائنگ وی‘ کا نام دیتے تھے۔ یہ بھی اہم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے دوران اپنے لیے گٹار خود ہی بنایا کرتے تھے۔

چودہ برس کی عمر میں کنسرٹ کے دوران آرکسٹرا کا حصہ ہوتے ہوئے گٹار بجانے والے عامر ذکی نے سن 1990 کی دہائی میں سولو یا اکیلے گٹار کی پرفارمنس دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو جانے والے نعت خوان جنید جمشید کے ساتھ بھی گٹار بجایا تھا۔ جنید جمشید نے بطور گلوکار ایک میوزک بینڈ ’وائٹل سائنز‘ بنا رکھا تھا۔ عامر ذکی نے کچھ عرصے ’وائٹل سائنز‘ میوزک بینڈ کا حصہ رہنے کے بعد اسے خیرباد کہہ دیا تھا۔

 اس دہائی میں، سن 1994 میں اُن کا سولو البم ’سِگنیچر‘ ریلیز ہوا اور پاکستانی میوزک مارکیٹ میں اِس البم کو شاندار انداز میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس البم پر انہیں ’ساؤنڈ کرافٹ گولڈ ڈسک‘ نامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ اسی البم میں اُن کا مقبول ترین سازینہ ’میرا پیار‘ شامل تھا۔

پاکستان کے میوزک حلقوں کا خیال ہے کہ عامر ذکی کی گٹار نوازی سے کئی نوجوان متاثر ہوئے ہیں اور وہ جاز اندازِ موسیقی کے حوالے سے  ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کئی ماہرین موسیقی اس پر متفق ہیں کہ جب وہ گٹار کی تاروں کو چھوتے تھے تو اُس سے دل کی نازک رگیں کھچتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔