1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عاصمہ جہانگر کا انتقال اور سوشل میڈیا

عاطف توقیر
11 فروری 2018

انسانی حقوق کی معروف پاکستانی کارکن اور سینیئر وکیل عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل پاکستانی معاشرے میں موجود واضح تقسیم کا عکاس ہے۔

https://p.dw.com/p/2sTVE
Asma Jahangir die Anwältin und Menschenrechtlerin aus Pakistan
تصویر: Mukhtar Khan/AP/dapd

عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر آتے ہی، سوشل میڈیا پر زبردست ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ متعدد اہم سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے اس واقعے پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا جا رہا ہے، جب کہ بعض افراد اس پر کھلے عام خوشی کا اظہار کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر اپنے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر شدید افسوس ہے۔ وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی علم بردار تھیں۔ میں ان سے ایک ہفتے قبل اکسفورڈ میں ملی تھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ اب وہ ہم میں نہیں۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے اپنی جنگ جاری رکھیں۔‘‘

 

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ماوری سرمد نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’آج صرف پاکستان ہی نہیں روئے گا بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو رنج ہو گا۔ یہ صرف پاکستان کا نقصان نہیں ہے۔ انہوں نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا۔‘‘

معروف پاکستانی صحافی رضا رومی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’طاقت کے سامنے کھڑے ہو کر سچ کہنا ایک جملہ ہے مگر عاصمہ جہانگیر نے اس پر عمل کر کے دکھایا اور اپنی آخری سانس تک ڈٹی رہیں۔ انہوں نے ملاؤں، فوج، ججوں، سیاستدانوں اور طاقت ور افراد کے سامنے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ انہیں دھمکیاں ملیں، حملے ہوئے مگر وہ کبھی خوف زدہ نہ ہوئی۔‘‘

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور بلاگر عاصم سعید نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا، ’’میں پاکستانی صدر اور وزیراعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ عاصمہ جہانگیر کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے اور تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا جائے۔‘‘

عاصمہ جہانگیر تمام زندگی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہیں اور وہ پاکستان میں طاقت ور فوج اور عسکری پالیسیوں کی بڑی ناقد تھیں، اسی تناظر میں ان پر تنقید بھی کی جاتی رہی۔ اس ٹوئٹ کے جواب میں سوشل میڈیا صارف نومی نے لکھا، ’’وجہ۔۔ قوم کے لیے اس عورت نے کیا کیا ہے کہ سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے، سوائے فوج کے خلاف لوگوں کو کرنے کے۔‘‘

ایک اور سوشل میڈیا صارف کے مطابق، ’’ایسا کون سا کارنامہ بحثیت پاکستانی قانون دان ادا کیا؟ عوام جاننا چاہتے ہیں۔‘‘