1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طویل فاصلے تک مار کرنے والے روسی میزائل مل گئے، ایران

عاطف توقیر11 اپریل 2016

ایران نے تصدیق کی ہے کہ روس کی جانب سے طویل فاصلے تک زمین سے فضا میں مار کی صلاحیت کے حامل S-300 میزائل نظام موصول ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ITAi
Russland Flugabwehrsystem S-300
تصویر: picture-alliance/AP Photo

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان جابر انصاری نے پیر کے روز بتایا کہ روس کی جانب سے ترسیل کیا گیا یہ میزائل نظام ایران کو موصول ہو چکا ہے۔ ’’روس کے S-300 میزائلوں کی پہلی کھیپ ایران پہنچ چکی ہے۔‘‘

فروری میں روسی سرکاری خبر رساں ادارے RIA نے بتایا تھا کہ ماسکو حکومت یہ میزائل نظام تہران کے حوالے کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ میزائل نظام جنوبی روسی شہر اسکراخان سے بحیرہ کیسپیئن کے ذریعے پانی کے راستے سے ایران بھیجا جائے گا۔

Iran Raketentest
ایرانی میزائل پروگرام پر مغربی دنیا کو تحفظات ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Iranian defence ministry

روس اور ایران کے درمیان ان میزائلوں کی حوالے سے ڈیل سن 2007ء میں طے پائی تھی، جس کے تحت روس کی جانب سے ایران کو متعدد S-300 میزائل منتقل کیے جانے تھے، تاہم ایران پر اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے اس ڈیل پر عمل درآمد نہیں ہو پایا تھا۔

اقوام متحدہ نے ایران کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل پر سخت ترین پابندیاں عائد رکھی تھی۔ گزشتہ برس تاہم ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد ان پابندیوں کے خاتمے کی راہ ہم وار ہو گئی تھی، جب کہ رواں برس جنوری میں اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ ایران جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہے، یہ پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ ایران اور روس کے درمیان اس ڈیل کی قدر نو سو ملین ڈالر تھی۔

ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایران کو میزائل نظام مہیا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

دوسری جانب اسرائیل اور امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے ایرانی میزائل پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا کا موقف ہے کہ ایران کی جانب سے بلیسٹک میزائلوں کے تجربات جوہری ڈیل کی خلاف ورزی ہیں، تاہم تہران حکومت کا موقف ہے کہ ایرانی میزائل پروگرام ملکی دفاعی صلاحیت کے لیے ضروری ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔