1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے خلاف آپریشن / پاک فوج کے ترجمان کے ساتھ ڈوئچے ویلے کا خصوصی انٹرویو

امتیاز گل، اسلام آباد1 مئی 2009

بونیر اور سوات کے کئی علاقوں میں پاکستانی فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ آج بھی جاری رہا،جس میں کم از کم 50 انتہا پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HiKK
پاکستانی وادیء سوات (پیلے رنگ میں)تصویر: GFDL / Pahari Sahib

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے ہتھیاروں اور ان کی حکمتِ عملی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھی بونیر کے علاقے میں کئی سو جنگجو چھپے ہوئے ہیں اور اس وقت بھی کم از کم 50 فوجی اور سول اہلکار طالبان کے قبضے میں ہیں۔

میجر جنرل اطہر عباس نے ڈوئچے ویلے کے لئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ سوات میں بھی طالبان امن سمجھوتے کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، چنانچہ اُن کے خلاف فوجی آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں، البتہ یرغمالیوں کو چھڑانے کے لئے احتیاط کی جا رہی ہے تا کہ جانی نقصان کم سے کم ہو:"آپریشن کی رفتار اس حوالے سے سست ہے کہ جانی نقصان کم ہو ،آبادی والے علاقوں سے احتیاط کی جا رہی ہے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو“۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج انتہا پسندوں کی طاقت ختم کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے لیکن اُسے اُن کے مقابلے کے سلسلے میں نئی ٹیکنالوجی کی کمی کا سامنا ضرور ہے:"ہمارے پاس پروفیشنل آرمی ہے اور دو سال سے ’اَن کنونشنل کاؤنٹر انسرجنسی آپریشن ‘ ٹریننگ شروع کی ہوئی ہے اس قسم کے آپریشن میں جدید اور حساس قسم کی ٹیکنالوجی چاہئے اور اس ٹیکنالوجی کے نہ ہونے سے آپریشن سست رفتاری کا شکار ہوجاتے ہیں، اپنی صفوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور پھر اس آپریشن کے اندر عسکریت پسندوں کو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی فوج کے پاس ہو گی تو فوج بہت زیادہ بہتر انداز سے اس علاقے میں کام کرے گی“۔

بونیر اور سوات بھی کشمیر کی طرح پہاڑی علاقے ہیں اور فوج کے لئے سب سے بڑا چیلنج ان پہاڑی وادیوں میں عسکریت پسندوں کا پیچھا کرنا ہے لیکن جنرل اطہر عباس کے مطابق اس بار دہشت گردوں کے خلاف ہیلی کاپٹرز، جنگی طیارے اور بڑی توپیں بھی استعمال ہو رہی ہیں، جس سے اُنہیں کافی نقصان پہنچایا جا سکا ہے۔

(انٹرویو سننے کے لئے درجِ ذیل لِنک پر کلِک کریں)