1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی قید میں گزرے دنوں پر کتاب

کرسٹیان اگناتسی / امجد علی8 ستمبر 2013

سوئٹزرلینڈ کی ڈانئیلا وڈمر اور ڈیوڈ اوخ نے پورے 259 دن پاکستانی طالبان کی قید میں گزارے، تب کہیں انہیں فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ اب انہوں نے اپنے تجربات پر ’اور کل تمہیں ہلاک کر دیا جائے گا‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/19dia
ڈانئیلا وڈمر اور ڈیوڈ اوخ
ڈانئیلا وڈمر اور ڈیوڈ اوختصویر: Christian Hartmann/AFP/Getty Images

320 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بنیادی طور پر جرمن زبان میں ہے، جس میں اُنہوں نے نہ صرف خود پر بیتنے والے حالات کو قلم بند کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ پھر سے ایک معمول کی زندگی گزارنے کے لیے اُن کی کوششیں کن مشکلات سے دوچار ہو رہی ہیں۔

سہانے خواب کی تعبیر کے بعد ایک ڈراؤنا خواب

یہ سوئس جوڑا اپنی چھوٹی سی ویگن میں اُس بڑے سفر پر نکلا تھا، جو اُن کا ایک دیرینہ خواب تھا کہ وہ خشکی کے راستے ہمالیہ کا چکر لگائیں۔ تیس سالہ ڈانئیلا وڈمر اور تینتیس سالہ ڈیوڈ اوخ نے اپنے خواب کی تعبیر پا لی تھی اور اب چار ماہ کے اس کامیاب سفر کے بعد وہ واپس وطن لوٹتے ہوئے راستے میں کچھ دنوں کے لیے پاکستان میں رکے تھے۔ یہ جون 2011ء کے آخری دن تھے۔

طالبان کی قید میں اس جوڑے نے 259 روز گزارے
طالبان کی قید میں اس جوڑے نے 259 روز گزارےتصویر: imago stock&people

اس سوئس جوڑے کا بھیانک خواب یکم جولائی 2011ء کو شروع ہوا۔ انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے بلوچستان میں لورالائی کے قریب پڑاؤ کیا ہی تھا کہ طالبان نے انہیں اغوا کر لیا۔ اس کے بعد اُنہیں کئی روز تک دن کو بھی اور رات کو بھی صحرائی اور پہاڑی راستے پر پیدل چلنا پڑا، یہاں تک کہ وہ طالبان کے گڑھ وزیرستان پہنچ گئے۔

اس کے بعد کئی مہینے اسی خوف میں بسر ہوئے کہ انہیں کسی بھی وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ وہ دن رات اپنی زندگی کی دعائیں مانگتے تھے۔ وہ اپنے یرغمال کنندگان سے ہی نہیں بلکہ اُن کے دشمنوں سے بھی خوفزدہ تھے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ڈیوڈ اوخ نے بتایا:’’ہمیں عین اُسی جگہ رکھا گیا تھا، جو امریکیوں کا بھی امکانی ہدف تھے۔‘‘ روزانہ سروں کے اوپر فضا میں ڈرونز کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔ اوخ کے مطابق وہ چونکہ یرغمالیوں کی نظر میں اہم قیدی تھے، اس لیے اُن کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا گیا اور مارا پیٹا نہیں گیا۔ اُنہیں کھانا بھی اچھا دیا گیا اور عورت ہونے کی وجہ سے ڈانئیلا وڈمر کو بھی احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا رہا۔

خشک روٹی اور چھوٹے چھوٹے آلو

بعد ازاں وہ کئی مہینوں تک لالہ نامی ایک طالب کے گھر پر اُس کے اہلِ خانہ کے ساتھ رہتے رہے۔ وہاں اُنہیں ایک الگ کمرہ دیا گیا اور وہ کھانا بھی باقی لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔ یہ گھرانا چار خواتین اور سات بچوں پر مشتمل تھا، جنہیں دوپہر کے کھانے کے لیے خشک روٹی، چھ تا سات چھوٹے چھوٹے آلو اور پانی میسر ہوتا تھا۔ گوشت یا چکنائی والی چیزیں کم ہی ملتی تھیں۔ ڈانئیلا کے مطابق خود وہ طالب باہر سے خوب پیٹ بھر کر لوٹا کرتا تھا۔ دونوں سوئس شہری اکثر بیمار رہا کرتے۔

بچے اور خواتین بھی قیدیوں کی طرح

طالبان کے اپنے بچے اور خواتین بھی یرغمالیوں کی طرح کی زندگی گزارتے تھے۔ ڈانئیلا کے مطابق’ وہ بھی اُس گھر میں بند رہتے تھے اور انہیں بھی وہاں سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ڈانئیلا کو قید کے دوران تھوڑی بہت پشتو سمجھ میں آنے لگی تھی اور وہ تقریباً 300 مختلف الفاظ سمجھ لیتی تھی۔ ایک روز ایک خاتون نے اُس سے پشتو میں پوچھا، ’تم روتی کیوں ہو؟ باہر جانے کی تو ہمیں بھی اجازت نہیں ہے‘۔

ڈانئیلا اور ڈیوڈ کے مطابق یہ بچے اور خواتین نل سے ہمہ وقت دستیاب پانی یا کبھی بھی نہ جانے والی بجلی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح وہ تعلیم سے بھی نا آشنا تھے۔

ڈانئیلا وڈمر اور ڈیوڈ اوخ پاکستان میں اپنی رہائی کے بعد
ڈانئیلا وڈمر اور ڈیوڈ اوخ پاکستان میں اپنی رہائی کے بعدتصویر: dapd

سوئٹزرلینڈ میں: غفلت پر بحث

جہاں ڈانئیلا وڈمر اور ڈیوڈ اوخ پاکستان میں ایک ایک لمحہ موت کے سائے میں بسر کر رہے تھے، وہاں اُن کا ملک اور اُن کے گھر والے اُن کی رہائی کے لیے ہر ممکنہ کوششیں کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ تاہم اپنی اِس کتاب میں اُنہوں نے سوئس حکام کا شکریہ ادا نہیں کیا ہے۔ ڈانئیلا کے مطابق ’ہم کیوں شکریہ ادا کریں، ہم تو اپنے بل بوتے پر آزاد ہوئے ہیں‘۔ سوئٹزرلینڈ میں اس بحث کے حوالے سے کہ ایک چھوٹی سی گاڑی میں پاکستان کے سفر پر جا کر یہ سوئس جوڑا لا پرواہی کا مرتکب ہوا ہے، ڈانئیلا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’ہم نے جان بوجھ کر خود کو خطرے میں نہیں ڈالا۔ وہاں جانے سے پہلے ہم نے ساری معلومات حاصل کی تھیں اور ہمیں پتہ چلا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ سات برسوں کے دوران کسی سیاح کو اغوا نہیں کیا گیا تھا۔‘‘

پھر جب اُن کے یرغمال کنندگان نے تاوان کے طور پر پچاس ملین ڈالر کے مطالبے کو بڑھا کر پچاس بلین ڈالر کر دیا تو ڈانئیلا اور ڈیوڈ نے، جو سوئٹزرلینڈ میں پولیس اہلکاروں کے طور پر تربیت حاصل کر چکے تھے، فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔ پوری طرح سے تیاری کرنے کے بعد ایک اندھیری رات کو وہ فرار ہونے اور پاکستانی فوج کی ایک چوکی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد جلد ہی وہ پاکستان سے طیارے کے ذریعے واپس اپنے وطن سوئٹزرلینڈ پہنچ گئے۔

روزمرہ زندگی میں واپسی

اپنے کامیاب فرار کے ایک سال بعد بھی ڈانئیلا اور ڈیوڈ معمول کی زندگی میں واپس لوٹنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اپنے تجربات کو زیادہ وسیع حلقے تک پہنچانے کے لیے اُنہوں نے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ ڈانئیلا اب بھی کسی کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کرتے وقت اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتیں۔ دونوں نے اس سارے واقعے سے یہ سبق سیکھا ہے کہ ’آزادی اور حق خود ارادیت سب سے بڑی نعمت ہے‘۔