طالبان نے لاہور حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی
31 مارچ 2009پیر کی صبح ہونے والے اس دہشت گردانہ واقعے میں لاہور کے نواح میں بھارتی سرحد کے قریب واقع مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر کے گراؤنڈ میں پریڈ کرتے ہوئے پولیس کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں آٹھ پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ تقریبا نوے زخمی ہوگئے تھے۔ فوج، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے بعد تقریبا آٹھ گھنٹے مسلسل کارروائی کے بعد پولیس اکیڈمی کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔
پاکستان میں طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے بین الاقوامی خبررساں ادارے روئٹرز کو ٹیلی فون کر کے اس واقعے میں ان کے گروپ کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
’’ یہ حملہ ہمارے گروپ نے کیا ہے۔ اس کی تفصیلات میں بعد میں دوں گا۔‘‘
بیت اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ہیں اور خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ محسود کے القاعدہ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ مضبوط رابطے ہیں۔
دہشت گردوں کے حملے کے بعد آپریشن میں چار حملہ آور ہلاک ہو گئے جب پاکستانی حکام کے بقول ایک حملہ آور کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ آپریشن کے خاتمے پر پاکستانی مشیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملہ آوروں کا بیت اللہ محسود سے تعلق ہو سکتا ہے۔ رحمان ملک نے بتایا کہ گرفتار کیا جانے والا حملہ آور افغان باشندہ ہے اور پندرہ روز قبل لاہور میں داخل ہوا تھا۔
یہ واقعہ لاہور ہی میں سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے چند ہفتے بعد پیش آیا ہے۔ تین مارچ کو پیش آنے والے اس واقعے میں ٹیم کے کارواں کے ایک بس ڈرائیورکے علاوہ چھ پولیس اہلکاربھی ہلاک ہوگئے تھے۔
لاہور میں یہ دہشت گردانہ واقعہ امریکی صدر باراک اوباما کی پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے تریتیب دی گئی نئی امریکی پالیسی کے اعلان کے صرف ایک دن بعد ہوا ہے۔ نئی امریکی پالیسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی سیاسی حکومت کی بھرپور مدد اور تعاون کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے مربوط منصوبہ بندی اور وسائل کے درست استعمال پر بھی زور دیا گیا ہے۔