صومالی قزاقوں کے خلاف آپریشن تیز
27 دسمبر 2008دوسری جانب چین کا بحری مشن آپریشن میں حصہ لینے کے لئے قرن افریقہ کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔
خلیج عدن میں تعینات جرمن بحری مشن نے مصرکے ایک مال بردار جہاز کے اغوا کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ یہ جہاز، جس کا عملہ 31 افراد پر مشتمل ہے، ایشیا جارہا تھا۔ جرمن بحریہ کے ترجمان کے مطابق اس جہاز پر حملے کی اطلاع پر جنگی بحری جہاز کارلسرُوہے سے کارروائی کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران قزاقوں کی فائرنگ سے جہاز پر موجود ایک مصری شہری زخمی ہو گیا جسے طبی امداد دینے کے لئے جرمن بحری جہاز پر منتقل کر دیا گیا جس پر موجود جرمن کماندر ہنس یوآخم کُوفال نے بتایا: "ہم اپنے بحری جہاز کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ اس پھنسے ہوئے جہاز کی طرف بڑھے۔ انسانی جانیں بچانا ہماری ترجیح تھی۔ وہاں سے ہم جس زخمی کو نکال لائے، اس کی حالت اب بہتر ہے۔"
جرمن پارلیمان نے صومالیہ کے ساحلی علاقوں میں سرگرم قزاقوں پر قابو پانے کے لئے ایک جنگی بحری جہاز اور 1400 فوجی خلیج عدن بھیجنے کی منظوری گزشتہ ہفتے دی تھی۔ جرمنی کا یہ بحری مشن قزاقوں کے خلاف یورپی یونین کے آپریشن ایٹالانٹا کا حصہ ہے۔
جرمن بحری دستے امریکی قیادت میں جاری "آپریشن اینڈیورنگ فریڈم" کے تحت قرن افریقہ میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس مشن کے تحت جرمن بحری جہاز کارلسروہے پہلے سے ہی خطے میں موجود تھا جو گزشتہ ہفتے آپریشن ایٹالانٹا میں شامل ہو گیا۔
دوسری جانب چین کا ایک بحری مشن خلیج عدن میں قزاقوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کے لئے روانہ ہو گیا ہے۔ جاپانی وزیراعظم Taro Aso نے بھی ملکی کابینہ کو ہدایت کی ہے کہ صومالی قزاقوں کے خلاف آپریشن کے لئے ممکنہ جاپانی بحری مشن بھیجنے کی تیاریاں تیز کردی جائیں۔
رواں سال خلیج عدن اور صومالیہ کے قریب بحرہند کی سمندری پٹی میں قزاقوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے تاوان کی مد میں خطیر رقوم بھی حاصل کی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بحری جہازوں کی انشورنس کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان صومالی قزاقوں نے ابھی تک تقریبا 400 افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے جبکہ 19 بحری جہاز بھی ابھی ان کے قبضے میں ہیں۔
صومالی قزاقوں کے خلاف بین الاقوامی آپریشن میں تیزی گزشتہ ماہ اس وقت آئی جب انہوں نے سعودی تیل بردار جہاز Sirius Star کو اغوا کرلیا۔ جہاز پر ایک سو ملین ڈالر مالیت کا دو ملین بیرل تیل لدا ہوا تھا۔ اب تک اغوا کیا جانے والا یہ سب سے بڑا بحری جہاز بدستور صومالی قزاقوں کے قبضے میں ہے۔
قزاقوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صومالیہ میں 1991 کے بعد سے کوئی باقاعدہ حکومت نہیں ہے۔ داخلی شورش کے شکار اس مشرقی افریقی ملک میں سیاسی بحران گزشتہ ہفتے اس وقت مزید کشیدہ ہوگیا جب نومنتخب وزیراعظم محمد محمود نے عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی استعفیٰ دے دیا جبکہ صدر عبداللہ یوسف نے بھی 27 دسمبر کو مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔