1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صرف پانچ سو روپے میں ایک ارب بھارتیوں کی تفصیلات لیک

5 جنوری 2018

بھارت میں حکام نے سرکاری دفاتر سے بائیومیٹرک شناختی اسکیم کے تحت جمع کیے جانے والے عوام کے ذاتی ڈیٹا کی چوری اور اس کے فروخت کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد تفتیش کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2qPfk
Indien Aadhar Card biometrische Personen-Indentifizierung
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Jagadeesh

اس سے متعلق محکمے ’دی یونیک آئیڈینٹیفیکیشن آتھارٹی آف انڈیا‘ (یو آئی ڈی اے آئی) کا کہنا ہے کہ ایسی ذاتی معلومات تک ’غیر قانونی طور پر رسائی حاصل کرنے‘ کی تفتیش ضروری ہے۔ بھارت میں بنیادی شناخت کے لیے حکومت ایک یو آئی ڈی اے آئی کارڈ جاری کرتی ہے جو ’آدھار‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ ایک بائیومیٹرک کارڈ ہے، جس کے لیے آنکھوں کی پتلیوں کا سکین اور انگلیوں کے نشانات ایک ڈیٹا بیس میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ اس کارڈ کے ساتھ ہی گھر کا پتہ، فون نمبر، تاریخ پیدائش، ای میلز، بینک اکاؤنٹ اور پاسپورٹ وغیرہ جیسی ذاتی تفصیلات بھی درج ہوتی ہیں۔ یہ تمام تفصیلات حکومت کی متعلقہ ویب سائٹ پر دستیاب ہیں اور حکومت کا دعوی ہے کہ یہ پوری طرح سے محفوظ ہیں۔

لیکن گزشتہ روز ایک انگریزی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اس نے محض پانچ سو روپے کے عوض ہی ایک ایجنٹ کی مدد سے اس ڈیٹا تک آسانی سے رسائی حاصل کر لی۔ اس انکشاف کے بعد ہی حکام نے کیس درج کیا اور اس کی تفتیش کے احکامات دیے گئے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس نے ایجنٹ کو محض پانچ سو روپے دیے، جس کے عوض اس نے ایک یوزر نیم اور پاسورڈ مہیا کیا جس سے با آسانی یو آئی ڈی آے آئی کی ویب سائٹ تک رسائی مل گئی اور پھر اس پر کوئی بھی آدھار نمبر ڈالنے سے متعلقہ شخص کا نام، پتہ، فوٹوز، فون نمبر اور ای میل ایڈرس جیسی تمام تفصیلات آسانی سے دستیاب تھیں۔ ایجنٹ نے ایک ایسا مخصوص سافٹ ویئر بھی مہیا کیا، جس کی مدد سے آدھار کارڈ پرنٹ کر کے با آسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Indien Aadhar Card biometrische Personen-Indentifizierung
آدھار ایک بائیومیٹرک کارڈ ہے، جس کے لیے آنکھوں کی پتلیوں کا سکین اور انگلیوں کے نشانات ایک ڈیٹا بیس میں ریکارڈ کیے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/N. Jagadeesh

اخبار ’دی ٹریبیون‘ کا کہنا ہے کہ جب متعلقہ حکام کو اس بارے میں بتایا گيا تو وہ حیرت میں پڑ گئے کہ آخر  قومی سلامتی سے متعلق اتنی بڑی خلاف ورزی  کیسے ممکن ہوئی؟ محمکے کے ایک سینیئر افسر سنجے جندل  کا کہنا تھا،  ’’میرے اور محکمے کے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ کسی کے بھی پاس اس ویب سائٹ پر لاگ ان کی سہولت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ کسی دوسرے کے پاس اس طرح کی رسائی غیر قانونی  ہے اور یہ قومی سلامتی کی بڑی خلاف ورزی ہے۔‘

اس کے بعد یو آئی ڈی اے آئی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پولیس سے مدد لی جارہی ہے اور لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیان میں لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ’’آدھار کارڈ سے متعلق ڈیٹا پوری طرح سے لیک نہیں ہوا ہے اور بائیومیٹرک سمیت تمام طرح کی تفصیلات محفوظ ہیں۔‘‘  

Indien Recht auf Privatsphäre- Aadhar Karte
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Das

آدھار کارڈ ابتدا سے ہی متنازعہ رہا ہے اور اس کے کئی پہلوؤں پر اعتراضات ہوتے رہے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد ایک بار پھر اس موضوع پر بحث چھڑ گئی ہے کہ آيا حکومت کے دفاتر میں عوام کی نجی معلومات کس حد تک محفوظ ہیں؟ حکمراں جماعت بی جے پی نے اس سے متعلق اپنے پہلے رد عمل میں اخبار کے انکشافات کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ محض افواہ پھیلانے کی غرض سے اس طرح کی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ لیکن اب جب خود محکمے نے اس کی تفتیش کا حکم دیا تو پارٹی خاموش ہے۔

حکومت آدھار کارڈ کو تمام سرکاری سکیموں سے مربوط کرنے کا ادارہ رکھتی ہے جس کے نفاذ کے بعد کوئی بھی سرکاری کام اس کے بغیر ممکن نہیں ہوگا تاہم کئی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اس کی سخت مخالف ہیں اور اس کے خلاف ایک مہم چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے نجی معلومات کو خطرہ لاحق ہے۔ اس سے متعلق ایک کیس سپریم کورٹ کے آئینی بینج کے زیر غور ہے۔ لیکن اس تازہ انکشاف کے بعد انسانی حقوق کے کارکنان اور کئی معروف شخصیات نے ایک بار پھر اس سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ اپنے ذاتی ڈیٹا کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ معروف صحافی اور کارکن شیوم وج نے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں لکھا، ’’فاقے سے اموات اور پرائیوسی کے حق کی خلاف ورزی تک آدھار سے جن خطرات کا خدشہ ہے وہ اب بہت واضح ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کو فوری طور پر آدھار کے تمام استعمال کو معطل کر دینا چاہیے۔‘‘

ایک اور کارکن جگدیش چترویدی نے لکھا، ’’جب صرف پانچ سو روپے میں ایک ارب آدھار کی تفصیلات لیک کر دی گئیں۔‘‘

آدھار کارڈ کی سکیم کانگریس کی سابقہ حکومت نے شروع کی تھی اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ فلاحی سکیموں کے تحت امداد نقد کی شکل میں دی جائے اور یہ پیسہ براہ راست لوگو ں کے کھاتوں میں منتقل کیا جائے۔ جب کانگریس کی حکومت نے اس کا آغاز کیا تھا تو بی جے پی نے آدھار کارڈ کی سخت مخالفت کی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس نے آدھار کو اپنی سکیموں میں کلیدی اہمیت دی ہے۔