1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدمے کے شکار تارکین وطن کو فوری طبی مدد چاہیے

27 اپریل 2018

جرمن سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات نے ایک ایسی مشترکہ پالیسی بریفنگ شائع کی ہے، جس کے مطابق جرمنی میں مقیم ہزاروں مہاجرین اور تارکین وطن ایسے ہیں، جو شدید ذہنی صدمات کا شکار ہیں اور جنہیں فوری طبی مدد کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/2wlkF
Bildergalerie Kobane
تصویر: Christopher Johnson

اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے  کہ جرمنی میں موجود بہت سے مہاجرین ایسے ہیں، جو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسی صورت حال میں نہ تو وہ سماجی رابطے قائم کرنے کے لائق ہیں اور نہ ہی ایک نئی زبان کے طور پر جرمن سیکھ سکتے ہیں۔

گرجا گھروں ميں پناہ کے معاہدے پر جرمن صوبائی وزیر کی تنقید

جرمن اسکول سسٹم میں مہاجر بچوں کے لیے انضمامی مسائل

یونان میں پاکستانی مہاجرین: مسائل تو ہیں، پاکستانی سفیر

جرمنی میں سن 2015ء میں پہنچنے والے قریب ایک ملین تارکین وطن میں سے تقریباﹰ ڈھائی لاکھ ایسے ہیں ،جو صدمات کا شکار ہیں۔ اس مطالعاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہزاروں ایسے افراد جرمن معاشرے کا حصہ بنے ہیں، جو سنجیدہ نوعیت کے ذہنی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

رواں ہفتے جرمن اکیڈمی آف سائنسز اور برلن برانڈن برگ اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے ایک مشترکہ پالیسی بریفنگ ’’صدمے کے شکار مہاجرین کو فوری مدد کی ضرورت ہے‘‘ کے نام سے شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی پہنچنے سے قبل ہزاروں مہاجرین نے شدید غربت، تشدد اور عقوبت کا سامنا کیا جب کہ کئی اس دوران اپنے اپنے خاندانوں کے افراد بھی کھو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ افراد نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں اور مسائل کا شکار ہیں۔

بے خوابی سے خودکشی تک

مہاجرین کے مسائل اور امور پر مفصل معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ انفومائیگرنٹس نے اس رپورٹ کے حوالے سےکہا ہے کہ ان مہاجرین میں ذہنی صدمات کی شدت اور سطح انفرادی طور پر مختلف ہے، تاہم یہ تارکین وطن بے خوابی، ڈراؤنے خوابوں، بیماریوں کے جانب لے جاتےکم زور مدافعتی نظام، منشیات کی عادت، خود اذیتی حتیٰ کہ خودکشی کے خیالات جیسی علامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان جسمانی اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ان افراد کو سماجی سطح پر دیگر افراد سے رابطوں میں مشکلات، رشتوں اور روابط کے قیام اور انہیں برقرار رکھنے کے چیلنجز اور معاشرے میں انضمام کے عمل میں پیچیدگیوں کا سامنا ہے، جب کہ ان افراد کو اب تک طبی امداد بھی بہم نہیں پہنچائی گئی۔ اس پالیسی بریفنگ کے مصنفین میں سے ایک، برلن کے شاریٹے یونیورسٹی ہسپتال کے نیوروسائنسز کے شعبے کے سربراہ مالک باژبوژ کے مطابق اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان افراد کو نفسیاتی علاج کے لیے ’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘ کی بنیاد پر ایک طویل قطار کا سامنا ہے۔ مالک باژبوژ نے کہا، ’’میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ عمومی ذہنی دباؤ کی شکار ایک مریضہ نے اسے کہا کہ وہ بے خوابی کا شکار ہے اور بار بار یہ سوچتی ہے کہ شام میں کیا ہوا۔ ایک اور مریض جو ڈراؤنے خوابوں اور خودکشی کے خیالات کا سامنا ہے، اسے علاج کے لیے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

اس نیورولوجسٹ کے مطابق اس سلسلے میں مریضوں کے مسائل کی شدت کو مدنظر رکھ کر ان کے علاج کے آغاز کی ضرورت ہے، تاکہ ایسے مریض جنہیں فوری طبی مدد کی ضرورت ہو، انہیں انتظار نہ کرنا پڑے۔

 

ع ت /  م م 

(انفومائیگرنٹس ڈاٹ نیٹ)