1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر بش کا اعتراف

ندیم گل2 دسمبر 2008

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔

https://p.dw.com/p/G7mx
’’عراق پر حملہ خفیہ اداروں کی غلط رپورٹوں پر کیا گیا۔ ‘‘: صدر بشتصویر: AP

عراق اور افغانستان کی جنگ، 2005 کے سمندری طوفان کترینا پر ناقص حکومتی کارکردگی اور حالیہ اقتصادی بحران یہ سب مو‍ضوعات، اندرون و بیرون ملک بش انتظامیہ پر تنقید کا باعث بھی بنے۔ تاہم جارج بش جاتے جاتے اچھا تاثر چھوڑنا چاہتے ہیں۔

ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں جارج بش نے کہا ہے کہ عراق پر حملہ خفیہ اداروں کی غلط رپورٹوں پر کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے دور صدارت میں انہیں اس سے زیادہ مایوسی کسی بات پر نہیں ہوئی۔ تاہم صدر بش نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹیں مختلف ہوتیں تو کیا وہ عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے یا نہیں۔ انہوں نے کہا: "صدارتی منصب سنبھالنے سے قبل جنگ کے لیے تیار نہیں تھا۔ جدید صدارت میں یہی بات ہے کہ غیرمتوقع حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"

امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے مطابق عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی بھاری تعداد موجود تھی۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر مارچ 2003 میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔ بعدازاں یہ رپورٹیں غلط ثابت ہوئیں۔

عراق میں آج بھی جنگ کی سی کیفیت ہے اور امریکی فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں روز کا معمول ہیں۔ اس عرصے میں 4207 امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

غیرمصدقہ رپورٹس کے مطابق عراق میں پرتشدد کارروائیوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں تقریبا 44 ہزار شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ عراقی سیکیورٹی فورسز کے 7462 افراد بھی مارے جا چکے ہیں۔ صرف گزشتہ ماہ کے دوران ہی پرتشدد واقعات میں 278 شہری ہلاک ہوئے۔

نومنتخب امریکی صدر باراک اوباما بارہا کہہ چکے ہیں کہ صدارتی منصب سنبھالتے ہی وہ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کا اعلان کر دیں گے۔ دوسری جانب بش انتظامیہ نے بھی حال ہی میں بغداد حکومت کے ساتھ عراق سے 2011 کے اواخر تک امریکی افواج کی واپسی کا معاہدہ طے کیا ہے۔