صحارا میں چوالیس تارکین وطن پیاس کی شدت سے ہلاک
1 جون 2017فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ تارکین وطن جس ٹرک پر سفر کر رہے تھے وہ شمالی نائجر میں خراب ہو گیا جس کے بعد ان افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ٹرک پر کُل چوالیس تارکین وطن سوار تھے جن میں زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک گھانا اور نائجیریا سے تھا۔
بِلما ریجن میں ریڈ کراس کے سربراہ لاول طاہر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ زندہ بچ جانے والے چھ افراد پیدل چل کر کسی طرح دور دراز واقع ایک گاؤں تک پہنچے جہاں انہوں نے چوالیس ہلاکتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ مرنے والوں میں تین شیر خوار اور دو دیگر بچے بھی شامل ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز اور نائجر میں حکام فوری طور پر ان چھ افراد کی بات کی تصدیق نہیں کر سکے تاہم لاول طاہر کے مطابق ریڈ کراس نے اس حوالے سے متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا ہے اور لاشوں کی تلاش جاری ہے۔
ہر ہفتے ہزاروں کی تعداد میں افریقی تارکین وطن صحارا کے صحرا کے خوفناک سفر پر نائجر سے لیبیا کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ ان مہاجرین کو بغیر چھت والے ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے اور اُن کے پاس محض چند لٹر پانی ہی اپنے ساتھ رکھنے کی جگہ بچتی ہے۔
حالیہ برسوں میں مغربی افریقی ممالک سے صحرائے صحارا عبور کر کے یورپ جانے کے خواہشمند تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
حکام اور امدادی اداروں کے لیے بحیرہ روم میں ہونے والی ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنا ممکن ہے لیکن یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ صحارا کے وسیع صحرا میں کتنے تارکین وطن ہلاک ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پولیس تعینات نہیں کی گئی۔
ڈنمارک کی کونسل برائے مہاجرین سے منسلک ایک تنظیم نے گزشتہ برس پندرہ جولائی کو جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسے ایسے شواہد ملے ہیں کہ سمندر کے ذریعے افریقہ سے یورپ پہنچنا صحرا کو عبور کر کے ایک براعظم سے دوسرے تک پہنچنے کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔
صحرا میں مہاجرین کی اموات کی بڑی وجوہات بیماری، ادویات کا فقدان، بھوک اور گاڑیوں کے حادثے بتائے جاتے ہیں جبکہ کئی افراد چاقوؤں سے حملوں اور فائرنگ کی وجہ سے بھی ہلاک ہوتے ہیں۔