صاف ماحول کو بنیادی آئینی حق تسلیم کرنے کا تاریخی مطالبہ
18 نومبر 2016کینیڈا میں مانٹریال سے جمعہ اٹھارہ نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کینیڈین حکومت سے یہ مطالبہ کئی دیگر افراد کے علاوہ تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی ایک عہد ساز شخصیت نے بھی کیا ہے۔ اس شخصیت کا نام ڈیوڈ سوزوکی ہے، جو ایک ماہر تعلیم، مشہور سائنس براڈکاسٹر اور تحفظ ماحول کے لیے سرگرم بہت معروف رہنما بھی ہیں اور جنہیں متبادل نوبل انعام بھی دیا جا چکا ہے۔
ڈیوڈ سوزوکی کا مطالبہ ہے کہ صاف ماحول کی فراہمی کو ہر شہری کا بنیادی آئینی حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اس بات کو بنیادی حقوق اور آزادیوں کی دستاویز یا چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈمز کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ ماحول کو مزید تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
تحفظ ماحول کی کوششوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف ماحول کو بنیادی آئینی حق کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ حقیقی معنوں میں بالکل نیا نہیں ہے۔ اس لیے کہ کچھ اہل بصیرت کارکنوں کی طرف سے یہی بات چند عشرے پہلے بھی کہی گئی تھی اور آج اس بات کو ملے جلے ردعمل اور نامکمل کامیابی کے ساتھ دنیا کے چند خطوں میں تسلیم بھی کیا جا چکا ہے۔
اس سلسلے میں ڈیوڈ سوزوکی تنبیہ کرتے ہوئے کینیڈا کے سابق وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کی مثال بھی دیتے ہیں، جو 2006ء سے لے کر 2015ء تک قریب ایک عشرے کے لیے برسراقتدار رہے تھے۔ سوزوکی کہتے ہیں کہ اسٹیفن ہارپر نے اپنے دور حکومت میں کینیڈا میں ’تحفظ ماحول سے متعلق کئی قوانین کا خاتمہ کرنا شروع‘ کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ ڈیوڈ سوزوکی نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال بھی دیتے ہیں، جنہوں نے ماحولیاتی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے مسئلے کو ایک بار ایک ’افواہ‘ یا ’غلط اطلاع‘ بھی قرار دیا تھا۔
ڈیوڈ سوزوکی، جو اگلے برس مارچ میں 80 برس کے ہو جائیں گے، کہتے ہیں، ’’ہم نے حالیہ صدارتی الیکشن کے نتائج میں ڈونلڈ ترمپ کی کامیابی کی صورت میں امریکا میں ایک ایسی بدلی ہوئی صورت حال دیکھی ہے، جسے ایک بہت بڑے زلزلے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ محض ایک الیکشن کے نتیجے میں ہی کہیں بھی ایسا دیکھنے میں آ سکتا ہے کہ عشروں تک کی جانے والی ماحول دوست قانون سازی چند ہفتوں میں ہی منسوخ یا تبدیل کر دی جائے۔‘‘
سانس لینے کے لیے صاف ہوا، پینے کا صاف پانی اور بھاری دھاتوں کے اثرات سے محفوظ صحت مند خوراک، جس کی تیاری میں زہریلی اور جراثیم کش زرعی ادویات کے طور پر کیمیائی مادے اور دیگر آلودگی پھیلانے والے عناصر استعمال نہ کیے گئے ہوں، ان سہولیات کو ہر انسان کا بنیادی حق بنانے کی سوچ پہلی بار 1970ء کی دہائی میں سامنے آ گئی تھی۔
لیکن پھر بہت سے ملکوں میں فاشسٹ، نوآبادیاتی اور اشتراکی حکومتی نظاموں کے خاتمے کے بعد نئے نئے ریاستی آئین تیار کرنے کی ایک غیر معمولی حد تک بڑی لہر دیکھنے میں آئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت دنیا بھر کے ملکوں میں جو بھی ریاستی آئین نافذ ہیں، ان میں سے نصف سے زائد 70ء کے عشرے کے درمیانی برسوں کے بعد تیار اور نافذ کیے گئے تھے۔
آج دنیا کے زیادہ تر ملکوں کے عوام میں ماحولیاتی شعور میں اضافہ ہو چکا ہے اور 80 سے زائد ریاستیں ایسی ہیں، جنہوں نے ماحول کی حفاظت کو اپنے اپنے آئین کا حصہ بنا رکھا ہے۔ جہاں تک کینیڈا کا تعلق ہے تو وہاں آئینی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے کینیڈا کا آئین برطانیہ میں بیٹھ کر آخری مرتبہ 1982ء میں تبدیل کیا تھا اور اسے کینیڈا کے 10 میں سے نو صوبوں کی تائید حاصل تھی کیونکہ کیوبک نے، جس کی علاقائی قیادت اس وقت علیحدگی پسند سیاستدانوں کے پاس تھی، اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔
ڈیوڈ سوزوکی زور دے کر کہتے ہیں کہ اس وقت کینیڈا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں تحفظ ماحول کے لیے سرگرم کارکنوں کو زمین کی آب و ہوا کی حفاظت اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے ’ماحولیاتی جنگجوؤں‘ کے طور پر کاوشیں کرنا ہوں گی۔