1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شینگن زون کے لیے ’ٹریول رجسٹر‘ کے قیام کی جرمن تجویز

شمشیر حیدر12 مارچ 2016

شینگن زون میں داخل ہونے کے بعد کوئی واپس بھی گیا یا نہیں؟ فی الحال رکن ممالک کے پاس کوئی منظم ریکارڈ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے مہاجرین کا بحران مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ جرمن وزیر داخلہ اس صورت حال کو بدلنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ICDD
Symbolbild EU Schengen-Raum Ende Schengener Abkommen
تصویر: Reuters/W. Rattay

جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر شینگن علاقے میں آنے اور جانے والوں کا منظم ریکارڈ رکھنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ فی الحال چھبیس یورپی ممالک پر مشتمل آزادانہ سفری معاہدے کے علاقے یا شینگن زون میں آنے اور جانے والوں پر نظر رکھنے کا کوئی منظم ریکارڈ نہیں ہے۔

درجنوں پاکستانی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری

رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے

ڈے میزیئر نے ’ڈی ویلٹ‘ نامی جرمن اخبار کو دیے گئے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا، ’’بین الاقوامی دہشت گردی، جرائم پیشہ گروہوں اور غیر قانونی نقل مکانی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون کب اور کہاں سے شینگن علاقے میں داخل ہوا اور کہاں سے واپس گیا۔‘‘

شینگن زون کے اندر ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے سفری دستاویزات یا ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ڈے میزیئر کے مطابق، ’’اگر کسی تیسرے ملک سے آنے والے شخص نے ویزہ کی مدت سے تجاوز کیا تو ویزہ اور بائیومیٹرک ڈیٹا کا نیا نظام ہمیں پیشگی انتباہ کر دے گا۔‘‘

مہاجرین کا بحران مشترکہ یورپی ردعمل کا متقاضی

جرمن سیاست دان سٹیفان مائر نے بھی ڈے میزیئر کے موقف کی حمایت کی ہے۔ مائر کا کہنا تھا، ’’یورپ کو دہشت گردی اور جرائم سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام یورپی ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں یورپ آنے اور جانے والوں کا ریکارڈ رکھنا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو بھی واپس بھیجنا چاہیے۔

جرمنی کی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے سینئر سیاست دان وولف گانگ کوبیکی نے جرمن وفاقی حکومت کی تارکین وطن سے متعلق پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کوبیکی کے مطابق، ’’یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ جرمنی تارکین وطن کی گردن دبوچنے کے لیے ترکی کا سہارا لے رہا ہے۔‘‘

لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس سیاست دان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا سہارا لینے اور بدلے میں ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی بجائے اس مسئلے کا یورپی سطح پر حل کرنا چاہیے تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید