1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شی جن پنگ کا نظریہ اور چینی خواب

8 مئی 2018

’چین کی ترقی‘ کے عنوان سے ڈی ڈبلیو کی اس سیریز میں عالمی افق پر چین کے ایک سپر پارو بننےکے سفر کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالی جا رہی ہے۔ اس آرٹیکل میں اس ’چینی تصور‘ کا جائزہ لیا گیا ہے، جس کا تعلق صدر شی کے نظریات سے ہے۔

https://p.dw.com/p/2xN3v
China Peking Chinesische Flagge
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong

باقی دنیا حیرت سے اپنی آنکھیں مل رہی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں کے دوران چین نے بہت تیزی سے اقتصادی ترقی کی اور ایک غریب ترقی پذیر ملک سے ایک بڑی صنعتی طاقت بن گیا۔ آج کل چین اپنی نظریں ’ورلڈ پاور‘ بننے پر جمائے ہوئے ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں چین کی صنعتی ترقی اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے خوف اور ستائش کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

چینی عوام اور خاص طور پر بیجنگ میں سیاسی حلقے اپنے ملک کی اس ترقی کو تاریخی غلطیوں کا ازالہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس سوچ کو بیجنگ کے شعبہ پروپیگنڈا نے پروان چڑھایا ہے اور اس کا تعلق صدر شی جن پنگ کے سیاسی فلسفے سے بھی ہے۔

2012ء میں شی جن پنگ کے صدر بننے کے ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی اور ریاستی رہنماؤں نے چینی عوام سے ماضی کی شہنشاہیت جیسی عظمت و شان کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔

Vertrag von Nanking
تصویر: picture-alliance/CPA Media Co. Ltd

 

ذلت و رسوائی کے سو سال

1842ء میں اسلحے کے زور پر چینی بندرگاہوں کو برطانوی ’افیون‘ کے لیے کھول دیا گیا۔ اسے ’افیون کی جنگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس دوران چین کے ساتھ نام نہاد ’غیر منصفانہ معاہدے‘ کیے گئے اور اس طرح چین کو مجبور کیا گیا کہ وہ ہانگ کانگ کا نظم و نسق برطانیہ کے حوالے کر دے۔ اس ’ذلت آمیز‘ صدی کا رسمی طور پر اختتام 1949ء میں کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے ساتھ ہوا تھا۔

’نیو سلک روڈ فورم‘ صدی کا بہترین منصوبہ ہے، شی جن پنگ

یورپ کو بھی نئی شاہراہِ ریشم تک رسائی دی جائے، موگرینی

شی جن پنگ کا تصور اب جامعات میں پڑھایا جائے گا

2049ء گلوبل سپر پاور

چینی قوم کو دوبارہ عظیم الشان بنانے کے منصوبے 2049ء تک جاری رہیں گے اور  اس طرح عوامی جمہوریہ چین اپنے قیام کی ایک سو ویں سالگرہ تک عالمی طاقت بن چکا ہو گا۔ جب بات چینی قوم کے عظیم الشان ماضی کی ہو تو شہری حقوق یا پیچیدہ آئینی مقدمے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکیں گے۔ ناقدین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ان کے وکلاء کو بھی جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ذرائع ابلاغ کی وہ آزادیاں بھی چھینی جا سکتی ہیں، جو انہوں نے بہت جدوجہد کے بعد حاصل کی ہیں۔

چینی تصور یا خواب کا نظریہ نہایت مبہم بھی ہے اور ساتھ ہی اس قدر جامع بھی ہے کہ اس سے کئی طرح کے پیغامات اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

Infografik One belt, one road - Chinas neue Seidenstraße RUS

 

شاہراہ ریشم سے دنیا کے مرکز میں

چینی نظریے کے تحت شی جن پنگ کے متعدد منصوبے آتے ہیں اور ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ کا منصوبہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس کے تحت یورپ، افریقہ اور ایشیا میں بنیادی ڈھانچوں اور سڑکوں کے جال بچھانے کی خاطر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ آج کے دور میں اس منصوبے کے ساتھ چین دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو کسی عالمگیر نظریے پر کام کر رہا ہے۔ اور یہ کوئی اتفاق بھی نہیں ہے کہ ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ منصوبے کو جدید شاہراہ ریشم بھی کہا جا سکتا ہے۔

چین سرمایہ کاری کی اپنی ماہرانہ پالیسیوں کے تحت اس اقتصادی طاقت کو سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ نقل و حمل کا نیا جال اور نئے اقتصادی رابطے یقینی طور پر چینی نظریے کے ترقی میں کردار ادا کریں گے۔

جدید دور کی شاہراہ ریشم