شمالی کوریا کے اہم حکومتی اہلکارکا مجوزہ امریکی دورہ
17 اکتوبر 2009امریکہ نے اعلیٰ سطح کے شمال کوریائی عہدیدار کے لئے ویزہ جاری کردیا ہے جسے دونوں ملکوں کے درمیان، شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کے سلسلے کے آغاز کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہRi Gun نامی شمالی کوریائی عہدیدار کونیویارک اور سان ڈیاگو میں اسکالرز اور شمالی کوریا کے امور کے ماہرین سے ملاقات کرنے کے لئے امریکی ویزہ جاری کیا گیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان دو طرفہ بات چیت کی جانب یہ پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے اور اِس سے پیانگ یانگ حکومت کی عالمی برادری میں تنہائی ختم ہونے کا آغاز بھی تصور کیا جا رہا ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کا شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کے عمل کو دوبارہ استوار کرنے کا ایک اشارہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔
کچھ دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کی خلیج بہت پھیل چکی ہے۔ کسی ایک حکومتی اہلکار کو ویزہ جاری کرنے سے بات چیت کی ابتداء تو ہو سکتی ہے لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو سکتا کہ پہلے سے موجود اختلافات کے ختم ہونے کا آغاز ہے۔ اِس سلسلے میں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان سردمہری کو خاصا وقت درکار ہے۔
چینی وزیر اعظم کے حالیہ دورہٴ شمالی کوریا کے دوران بھی پیانگ یانگ حکومت نے جہاں متنازعہ جوہری پروگرام پر چھ ملکی مذاکرات میں مشروط شرکت کا اظہار کیا تھا وہیں وہ پہلے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کی شروعات کا متمنی ہے۔ ایسے امکانات کا حوالہ سامنے آ یا ہے کہ ری گُن کی امریکہ میں موجودگی اور قیام کے دوران امریکی سفارت کار سونگ کم بھی اُن سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
امریکہ بھی امید کرتا ہے کہ اِس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا آغاز بعد میں وسعت اختیار کرتے ہوئے شمالی کوریا کے متنازعہ جوہری پروگرام پر تعطل کا شکار چھ ملکی مذاکراتی عمل بھی شروع پر ختم ہو گا۔ چھ ملکی مذاکرات میں امریکہ کے علاوہ جاپان، جنوبی کوریا، روس، شمالی کوریا اور چین شامل ہیں۔ پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام پر بات چیت کا عمل گزشتہ چھ ماہ سے معطل ہے۔