1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا: ایک اور دنیا ہے

ایستھر فیلڈ مین ⁄ عابد حسین11 اگست 2015

برطانیہ کے اٹھارہ سالہ طالب علم الیسانڈرو فورڈ نے چار مہینے کا ایک سیمسٹر شمالی کوریا کے دارالحکومت میں مکمل کیا ہے۔ فورڈ نے سیمسٹر کے دوران کے تجربات سے ڈی ڈبلیوکو ایک انٹرویو میں آگاہ کیا۔

https://p.dw.com/p/1GDPK
برطانیہ کا اٹھارہ سالہ طالب علم الیسانڈرو فورڈتصویر: privat

برطانوی طالب علم الیسانڈرو فورڈ کو گزشتہ برس کمیونسٹ ملک شمالی کوریا کی کِم اِل سُنگ یونیورسٹی میں داخلہ دیا گیا۔ یہ داخلہ ایکسٹرنل طالب علم کے طور پر تھا۔ کِم اِل سُنگ یونیورسٹی شمالی کوریا کے دارالحکومت پیونگ یانگ میں واقع ہے۔ الیسانڈرو فورڈ مغربی دنیا کا وہ پہلا طالب علم ہے، جسے شمالی کوریا کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ فورڈ اب واپس برطانیہ پہنچ چکا ہے اور اُس نے جہاں اپنے شمالی کوریائی دوستوں کے بارے میں بتایا وہیں یہ بھی بتایا کہ اُس کی ہمہ وقت نگرانی کی جاتی تھی۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو میں جب یہ پوچھا گیا کہ شمالی کوریا تعلیم حاصل کرنے کی کیا وجوہات تھیں حالانکہ مغربی دنیا کے طلبا عموماً امریکا، چین یا آسٹریلیا جاتے ہیں۔ الیسانڈرو فورڈ نے کہا کہ وہ پہلی مرتبہ سن 2011 میں اپنے والد کے ساتھ ایک بزنس ٹرپ پر شمالی کوریا گیا تھا۔ فورڈ کے مطابق والد کے ساتھ شمالی کوریا جانا ایک انتہائی بور تجربہ تھا۔

Alessandro Ford Skyline Pjöngjang Nordkorea
الیسانڈرو اپنے طلبا دوستوں کے ہمراہتصویر: privat

شمالی کوریا کے انتخاب کے حوالے سے فورڈ نے کہا کہ دو برس قبل وہ ایک سیمسٹر کسی غیر ملکی تعلیمی ادارے میں مکمل کرنے کو کوشش میں تھا لیکن کوئی انتخاب نہیں ہو سکا اور ویسے بھی وہ کوئی منفرد اور دلیرانہ ماحول کا متمنی تھا۔ الیسانڈرو فورڈ نے بتایا کہ اُس کے والد کوئی فیصلہ نہ کرنے پر اکتا گئے اور کہنے لگے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا تو اُسے شمالی کوریا کی کسی یونیورسٹی میں داخل کروا دیا جائے گا۔

ڈوئچے ویلے کو برطانوی طالب علم نے بتایا کہ اُس نے شمالی کوریا جانے پر آمادگی تو ظاہر کر دی لیکن شمالی کوریا کے حکام نے درخواست منظور کرنے پر کئی مہینے صرف کر دیے۔ بنیادی کوریائی زبان جاننے کی شرط پر داخلہ دینے کی حامی بھر لی گئی۔ فورڈ کے لیے شمالی کوریا اپنی ثقافت اور رہن سہن کے اعتبار سے برطانیہ سے انتہائی مختلف تھا اور اِسی طرح لوگوں کا طرزِ عمل اور سارا ماحول مختلف ضرور تھا لیکن پھر وہ آہستہ آہستہ اُس کا حصہ بنتا چلا گیا۔ فورڈ کے مطابق تاش کے علاوہ وہ ساتھی طلبا کے ساتھ فٹ بال اور باسکٹ بال کھیلنے کے ساتھ ساتھ بیئر پیتا تھا اور فلمیں بھی دیکھتا رہا۔ فورڈ نے شمالی کوریا میں قیام کے دوران کلچر شاک کو اہم قرار دیا لیکن وہ ابتدائی دو ماہ برطانوی اور شمالی کوریائی ثقافتوں میں پُل قائم کرنے کی کوشش میں رہا۔

Alessandro Ford Inliner fahren Pjöngjang Nordkorea Austauschstudent
فورڈ اسپورٹ کورٹس میںتصویر: privat

فورڈ کے مطابق شمالی کوریا میں پرائیویسی ایک ایسا عمل تھا، جس کے بارے میں لوگ آگاہ نہیں تھے۔ لوگوں کی زندگیوں میں اجتماعی طور پر نہانا، کھانا پینا،کپڑے دھونا اور کھیلنا معمول کا حصہ ہے۔ فورڈ کے خیال میں وہ اِن حالات میں اپنی انفرادی حیثیت کو بھولنے لگا تھا۔ فورڈ نے بتایا کہ شمالی کوریائی ثقافت کا سیاسی رنگ بھی ہے اور اِس میں تمام طلبا کو ہر روز صبح کے وقت کوریا کے عظیم لیڈر کے مجسمے کے آگے سر جھکانا لازم ہے۔ سیاسی ثقافت کا اک رنگ فورڈ کے نزدیک ہر صبح لاؤڈ اسپیکر پر سوشلزم کے توصیفی گیت طلبا ہوسٹل کے قریب نشر کیا جانا ہے۔

الیسانڈرو فورڈ کے مطابق اُسے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں تھی اور اپنے موبائل فون پر صرف غیر ممالک کال کر سکتا تھا لیکن پیونگ یونگ میں آزادانہ گھومنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ پیونگ یونگ شہر کی زندگی اور معمولات کے حوالے سے فورڈ نے بتایا کہ وہ چھوٹے بچوں کو اسکول جاتے اور لوگوں کو معمول کے مطابق کام پر جاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔ دارالحکومت سے باہر اُس نے محسوس کیا کہ زندگی مشکل اور لوگ شہری اشرافیہ کے مقابلے میں غریب دکھائی دیے۔ فورڈ کے مطابق اُس کی ہر وقت نگرانی کی جاتی تھی اور یہی بہت مشکل تھا۔ فورڈ نے اپنے ساتھی طلبا کے حوالے سے بتایا کہ وہ علم کے حصرل کے شدید متمنی تھے اور وہ شمالی کوریا کی باہر کی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن وہاں سیاسی نظریات پر گفتگو نہیں کی جاتی تھی۔