1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شرعی پولیس‘ قبول نہیں، جرمن حکام

امجد علی7 ستمبر 2014

جرمن شہر ووپرٹال میں کچھ انتہا پسند سلفی مسلمان اپنے ہم مذہب نوجوانوں کو منشیات وغیرہ سے منع کرنے کے لیے ’شرعی پولیس‘ بن کر راتوں کو گشت کرتے ہیں تاہم جرمن حکام نے اس طرح کی نام نہاد پولیس کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D8L6
جرمن شہر وُوپرٹال کے سلفی مسلمانوں کی وَیب سائٹ پر ’شرعی پولیس‘ کے ارکان کی تصویر
جرمن شہر وُوپرٹال کے سلفی مسلمانوں کی وَیب سائٹ پر ’شرعی پولیس‘ کے ارکان کی تصویرتصویر: Shariah-Polizei-Germany/Facebook

چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں راتوں کو گشت پر نکلنے والے یہ انتہا پسند سلفی مسلمان بظاہر اپنے ہم مذہب نوجوانوں کو شراب، موسیقی، فحاشی اور منشیات وغیرہ سے بچانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اُنہوں نے انٹرنیٹ پر ایک پراپیگنڈہ ویڈیو بھی جاری کر رکھی ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ مقامی آبادی کو عدم تحفظ اور بے یقینی کے احساس سے دوچار کرتے ہیں اور مسلمان نوجوانوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اُنہیں اپنے تنظیمی ڈھانچے کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک شخص ’شرعی پولیس‘ کے بارے میں انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی خبروں کو دیکھتے ہوئے
ایک شخص ’شرعی پولیس‘ کے بارے میں انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی خبروں کو دیکھتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

جرمنی کی مشہور ترین سلفی شخصیات میں سے ایک سوَین لاؤ کے خیال میں نظم و ضبط کا پابند بنانے والے اس طرح کے اہلکار کوئی ناجائز کام نہیں کر رہے۔ جرمن ٹیلی وژن سے باتیں کرتے ہوئے اُس نے کہا:’’جب کار میں بیلٹ وغیرہ نہ لگانے پر کسی شخص کو جرمانے کی پرچی ملتی ہے تو وہ آگے سے یہ تھوڑی کہتا ہے کہ تم نے ہمیں کیوں چَیک کیا ہے؟ وہ آگے سے چُپ چاپ اِسے قبول کر لیتا ہے۔‘‘

تاہم وُوپرٹال کی پولیس کی خاتون سربراہ بریگیٹا راڈے ماخر کا نقطہء نظر مختلف ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’میرے خیال میں یہ ہمارے آئینی نظام، ہمارے ریاستی ڈھانچے، خود مجھ پر اور میرے پولیس کے محکمے پر بھی ایک حملے کے مترداف ہے۔‘‘

وُوپرٹال کی رہائشی ایک خاتون نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’میرے خیال میں ہر شخص کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے۔ یہودیت، مسیحیت، بودھ مت اور اسلام میں بھی، ہر شخص کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے، کسی اور کو اُس میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

’شرعی پولیس‘ کے ارکان راتوں کو گشت پر نکلتے ہیں اور شراب خانوں اور رقص گاہوں کے باہر کھڑے ہو کر مسلمان نوجوانوں کو اپنے تنظیمی ڈھانچے کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں
’شرعی پولیس‘ کے ارکان راتوں کو گشت پر نکلتے ہیں اور شراب خانوں اور رقص گاہوں کے باہر کھڑے ہو کر مسلمان نوجوانوں کو اپنے تنظیمی ڈھانچے کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: Shariah-Polizei-Germany/Facebook

جرمن حکومت نے اس نام نہاد ’شرعی پولیس‘ کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ تھامس ڈے میزیئر نے کہا کہ ’جرمن سرزمین پر شریعت کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی شخص کو جرمن پولیس کی نیک نامی کو ناجائز طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی‘۔

پولیس نے اُنیس سے لے کر تینتیس سال تک کے گیارہ مردوں کے خلاف اجتماع سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں تحقیقات شروع کر دی ہیں البتہ ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

جرمنی کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومتی اقدامات کی تائید و حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی متوازی نظام عدل کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

اسی دوران جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل نے بھی وُوپرٹال میں ایک متبادل ’شرعی پولیس‘ کی تشکیل کی مذمت کی ہے۔ کونسل کے چیئرمین ایمن مزائیک نے کہا کہ ’یہ لوگ ناجائز طور پر اسلام کے نام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اپنے مضحکہ خیز اور مکمل طور پر بے معنی اقدامات سے پوری مسلمان کمیونٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں