1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی و عراقی آثارِ قدیمہ کی تباہی اور لوٹ مار

امجد علی22 اکتوبر 2014

دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل کے حصول کے لیے عراق اور شام میں اپنے زیرِ قبضہ تنصیبات کے معدنی تیل کے ساتھ ساتھ قدیم تاریخی مراکز کے آثارِقدیمہ سے ملنے والے نوادرات بھی فروخت کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DZst
تصویر: picture-alliance/dpa

’اسلامک اسٹیٹ‘ (آئی ایس) کی طاقت کا تعلق اُس بیش بہا دولت سے بھی ہے، جو اُس کے تصرف میں ہے۔ صرف خام معدنی تیل کی فروخت سے ہی اس دہشت گرد گروپ کو روزانہ تقریباً 2.5 ملین یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ گروپ شامی اور عراقی آثارِ قدیمہ کو بھی تباہ کرتا چلا جا رہا ہے اور وہاں سے لوٹے ہوئے قدیم تاریخی نوادرات بیچ کر بھی ناقابلِ اندازہ مالی وسائل حاصل کر رہا ہے۔ یہ نوادرات زیادہ تر مغربی دنیا میں فروخت کیے جا رہے ہیں اور خریدنے والے، دیگر ملکوں کے ساتھ ساتھ جرمنی میں بھی ہیں۔

آئی ایس کے جنگجو اب تک متعدد مذہبی مقامات اور مزارات و تباہ و برباد کر چکے ہیں اور وہاں موجود نوادرات کو لوٹ کر فروخت کر چکے ہیں
آئی ایس کے جنگجو اب تک متعدد مذہبی مقامات اور مزارات و تباہ و برباد کر چکے ہیں اور وہاں موجود نوادرات کو لوٹ کر فروخت کر چکے ہیںتصویر: Reuters/Thaier Al-Sudani

انٹرنیٹ پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں آثارِ قدیمہ کے ایک مرکز میں لُوٹ مار کرنے والوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ جو کچھ وہاں سے لُوٹ رہے ہیں، وہ ممکن ہے کہ بہت جلد جرمنی میں مثلاً میونخ کے ایک نیلام گھر میں پہنچ جائے، جہاں آج کل قدیم رومی اور یونانی دور کے نوادرات بھی نیلامی کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر چیزیں لوگوں کے نجی ذخائر سے لی گئی ہیں اور ممکنہ طور پر جنگ زدہ ممالک عراق اور شام سے لائی گئی ہیں۔

بہت سی چیزیں پانچ پانچ ہزار سال پرانی ہیں اور اُن کے نیچے صرف اتنا کچھ لکھا ہوا ملتا ہے کہ یہ مشرقِ وُسطیٰ سے لائی گئی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس طرح کی مختصر تفصیلات کا مقصد اس بات کو چھپانا ہوتا ہے کہ اصل میں آرٹ کے یہ نمونے کہاں سے لائے گئے ہیں۔ ماہرِ آثارِ قدیمہ مشائیل ملر کارپے کہتے ہیں:’’قدیم نوادرات کی یہ تجارت نہ صرف آثارِ قدیمہ کے مراکز اور وہاں موجود معلومات کو تباہ کر رہی ہے بلکہ دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا بھی ذریعہ بن رہی ہے۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ نوادرات خون آلود ہیں۔‘‘

بہت سی چیزیں پانچ پانچ ہزار سال پرانی ہیں
بہت سی چیزیں پانچ پانچ ہزار سال پرانی ہیںتصویر: DW

میونخ کا نیلام گھر اس حوالے سے کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ شام کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی دہشت گردوں نے متعدد تاریخی مقامات پر لُوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عراقی فوج کے ایک رکن قاسم عطاء کا کہنا تھا:’’آئی ایس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا ایک ذریعہ اُن عراقی تاریخی نوادرات کی فروخت بھی ہے، جو دو تا تین ہزار سال پرانے ہیں۔ اس کی ایک مثال موصل میں لوٹے جانے والے نوادرات ہیں، جنہیں مہنگے داموں بیچا گیا۔ اس سے حاصل شُدہ آمدنی کو یقینی طور پر اس دہشت گرد تنظیم پر خرچ کیا گیا۔‘‘

جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی جرمن ادارے کے مطابق جنگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے علاقوں سے لُوٹی گئی ثقافتی اَشیاء اکثر جرمنی بھی پہنچ جاتی ہیں۔ اس ادارے کی ایک ترجمان سِلویا کارفیلڈ کہتی ہیں:’’ایسا ہے کہ جرمن قانون کے تحت ایک عام مرغی کے انڈے کو بھی بہتر تحفظ حاصل ہے اور اُس کے حوالے سے بھی تمام تر تفصیلات وضاحت کے ساتھ سامنے لانا ہوتی ہیں، بجائے قدیم اَدوار کے بیش قیمت نوادرات کے۔ لوگ ظاہر ہے، اس قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘

اب جرمن حکومت قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے اس صورتِ حال کے آگے بند باندھنا چاہتی ہے، اس لیے بھی تاکہ دہشت گردوں کو مالی وسائل کی فراہمی کے اس سوتے کو خشک کیا جا سکے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ قانون کہیں 2016ء ہی میں نافذ العمل ہو سکے گا۔