شامی مہاجر کا اولمپک تک رسائی کا خواب پورا
26 اپریل 2016ابراہيم الحسين سن 2004 ميں ہونے والے اولمپک کھيلوں کے دوران ٹيلی وژن اسکرين کے سامنے سے ایک لمحے کے لیے بھی نہيں ہٹتا تھا۔ آج بارہ برس بعد وہ يونانی دارالحکومت ايتھنز ميں ايک پناہ گزين کی حيثيت سے رہ رہا ہے۔ شامی پناہ گزين الحسين معذور ہو چکا ہے ليکن پيراکی کے ليے اس کا جنون اب تک ختم نہيں ہوا۔ يہ ستائيس سالہ پناہ گزين منگل چھبيس اپريل کو ايتھنز ميں اولمپک کی ٹارچ تھامے ہوئے بے گھر ہوجانے والے ہزاروں افراد کی نمائندگی کرے گا۔ يونان کی اولمپک کميٹی کے چيف سپرائيروس کپرالوس ايتھنز کے اليوناس کيمپ ميں اسے يہ ٹارچ ديں گے، جو اس وقت تقريباً ڈيڑھ ہزار پناہ گزينوں کا گھر بنا ہوا ہے۔
سابقہ فری اسٹائل پيراک، جوڈو اور باسکٹ بال کے کھلاڑی ابراہيم الحسين نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ميں بائيس برس سے ايک ايتھليٹ ہوں اور آج مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ميں اس مقام پر پہنچ گيا ہوں جہاں مجھے پہنچنا تھا، اولمپک کی ٹارچ تک۔‘‘ اس کے بقول وہ اولمپک ٹارچ اٹھاتے وقت کافی فخر محسوس کرے گا اور يہ نہ صرف اس کے ليے بلکہ پناہ کی تلاش ميں يورپ پہنچنے والے تمام شامی مہاجرين کے ليے بھی باعث فخر ہے۔
انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے مطابق کے مطابق يہ ايک علامتی اقدام ہے، جس کا مقصد دنيا کے مختلف مقامات پر جاری مسلح تنازعات سے متاثرہ افراد کی حمايت ہے۔ کميٹی کے مطابق پانچ سے دس پناہ گزينوں کو جنوبی امريکی ملک برازيل کے شہر ريو ڈی جنيرو ميں اولمپک کھيلوں ميں شرکت کی اجازت بھی دی جائے گی، جو اولمپک کے پرچم تلے مارچ بھی کريں گے۔
اولمپک ٹارچ کو اکيس اپريل کو جنوبی يونان ميں اسی مقام پر جلايا گيا تھا، جہاں سے اولمپک کھيلوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ شمع کو بدھ کے روز تقريباً چودہ سو کلوميٹر کا سفر طے کرنے کے بعد برازيلين حکام کے حوالے کر ديا جائے گا۔ يہ ٹارچ تين مئی کے روز برازيل پہنچے گی اور کھيلوں کی باقاعدہ افتتاحی تقريب پانچ اگست کو ريو ڈی جنيرو کے ماراکانا اسٹيڈيم ميں ہو گی۔
شامی مہاجر اور ايک ايتھليٹ ابراہيم الحسين کا کہنا ہے کہ وہ برازيل جانا چاہتا ہے ليکن ايسا اس وقت ممکن نہيں۔ الحسين دريائے فرات کے کنارے دير الزور نامی شہر ميں بڑا ہوا تھا۔ اس کے والد نے پانچ برس کی عمر ميں اسے تيراکی سکھائی تھی۔ الحسين کے والد سوئمنگ کوچ ہيں اور يہی وجہ ہے کہ اس کے تيرہ ديگر بہن بھائيوں ميں سے تين اور بھی باقاعدہ مقابلوں ميں تيراکی کرتے ہيں۔
الحسين شامی خانہ جنگی کے دوران سن 2012 ميں ہونے والے ايک بم دھماکے کے نتيجے ميں ايک ٹانگ کھو بيٹھا تھا۔ بعد ازاں وہ جنگ سے فرار ہوتے ہوئے ترکی چلا گيا تھا اور پھر سن 2014 کے آغاز ميں يونانی جزيرے ساموس پہنچا تھا۔