1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی تنازعے ميں ميں ملوث ممالک، امداد کے معاملے ميں پيچھے

عاصم سليم1 فروری 2016

بين الاقوامی امدادی تنظيم آکسفيم کی ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ فرانس، سعودی عرب اور روس شامی خونریز تنازعے کے متاثرين کے ليے مالی امداد دينے والوں کی فہرست ميں کافی نيچے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1HmkZ
تصویر: Reuters/M.Djurica

برطانوی امدادی ادارے آکسفیم کے مطابق زيادہ تر امير ممالک اتنی مالی امداد نہيں ديتے، جتنا کہ ان کو اپنی اقتصاديات کے لحاظ سے دينا چاہيے۔ آکسفيم کی جانب سے پير يکم فروری کے روز جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کُل 8.9 بلين ڈالر امداد کی درخواست کی گئی تھی، جس کا صرف 56.6 فيصد موصول ہوا۔

آکسفيم کی رپورٹ کے مطابق روسی حکومت اپنی معيشت کے حجم کے اعتبار سے بننے والی امدادی رقم کا محض ايک فيصد امداد کی مد ميں ادا کرتی ہے جبکہ سعودی عرب اٹھائيس فيصد۔ ان دونوں ہی ممالک نے شامی تارکين وطن کو پناہ دينے سے انکار کر رکھا ہے۔ دريں اثناء رياض حکومت کی طرف سے دمشق حکومت کے خلاف برسر پيکار باغی گروپس  کی عسکری امداد کی جاتی ہے جبکہ ماسکو حکومت شامی صدر بشار الاسد کی حمايت ميں باغی گروپوں کے خلاف فضائی کارروائی ميں ملوث ہے۔

مغربی ممالک ميں فرانس نے گزشتہ برس امريکا کی قيادت ميں شام ميں دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے خلاف مہم ميں شراکت شروع کی تھی تاہم يہ ملک امداد کی مد ميں اپنی معيشت کے حجم کے اعتبار سے بننے والی امدادی رقم کا پينتاليس فيصد ادا کرتا ہے۔ گزشتہ برس فرانس نے پانچ ہزار شامی مہاجرين کو سياسی پناہ فراہم کی تھی۔

آکسفيم سے وابستہ ڈينيل گوريوان نے کہا، ’’کم از کم عالمی برادری کو امداد کی اپيل کی رقم تو مہيا کرنا چاہيے۔‘‘ ان کے بقول شامی تنازعے کے نتيجے ميں اب تک چار ملين شامی شہری پناہ گزين کی حيثيت سے زندگياں گزار رہے ہيں جبکہ ملک ميں اب بھی سات ملين افراد بے گھر ہيں۔

دوسری جانب امريکا نے اگرچہ اپنے حصے کی صرف 76 فيصد امدادی رقوم  دستیاب بنائی ہیں تاہم امداد کی رقم کے لحاظ سے امريکا سب سے بڑا ڈونر ہے۔ اسی دوران چند يورپی رياستوں نے اپنے حصے سے کہيں زيادہ امدادی رقوم مہيا کی ہيں۔ مثال کے طور پر ڈنمارک نے اپنی معيشت کے حجم کے اعتبار سے بننے والی امدادی رقوم کا 318 فيصد ادا کيا۔ اسی طرح ناروے نے 385 اور برطانيہ نے 237 فيصد۔ کويت نے اپنی معيشت کے حجم کے اعتبار سے بننے والی امدادی رقم سے کہيں زيادہ 554 فيصد امداد کی مد ميں ديا۔

شام ميں بنيادی ڈھانچہ کافی حد تک برباد ہو چکا ہے
شام ميں بنيادی ڈھانچہ کافی حد تک برباد ہو چکا ہےتصویر: Reuters/SANA

دوسری جانب آکسفيم کے مطابق اکثريتی ممالک اپنی معيشت کے حجم کے اعتبار سے تارکين وطن کو پناہ فراہم کرنے کے معاملے ميں کافی پيچھے ہيں۔ مہاجرين کی منتقلی کے حوالے سے سن 2020 تک امريکا نے اپنے حصے کے سات فيصد يا دس ہزار تارکين وطن کو پناہ دينے کا وعدہ کيا ہے جبکہ برطانيہ نے تيئس فيصد يا بيس ہزار مہاجرين کو پناہ دينے کا کہا ہے۔ کينيڈا، ناورے اور جرمنی نے اپنے حصے سے کہيں زيادہ مہاجرين کو پناہ فراہم کی ہے۔ گزشتہ برس جرمنی ميں 158,000 شامی شہريوں نے پناہ کی درخواستيں جمع کرائيں جبکہ امکان ہے کہ وہاں موجود شامی مہاجرين کی مجموعی تعداد اس سے کہيں زيادہ ہے۔

اس کے برعکس روس نے کسی بھی شامی تارک وطن کو پناہ دينے سے انکار کيا ہے جبکہ خليجی ممالک کو شامی تارکين وطن کی ’ری سيٹلمنٹ‘ يا ديگر ممالک منتقلی کے منصوبے ميں اس ليے شامل نہيں کيا گيا کيونکہ وہ اقوام متحدہ کی پناہ گزينوں سے متعلق کنونشن کا دستخط نہ کرنے کے سبب حصہ نہيں۔