1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے تاریخی نوادرات کہاں گئے؟

امتیاز احمد31 مارچ 2016

دو برس پہلے داعش کے عسکریت پسند شامی صوبے دیر الزور کے دروازوں پر کھڑے تھے۔ تاریخی نوادرات سے محبت رکھنے والوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ ان کو محفوظ کیسے کیا جائے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قدیم نوادرات اب کہاں ہیں؟

https://p.dw.com/p/1IMd7
Rettung von antiken Artefakten aus Syrien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/The Day After Heritage Initiative

دو برس پہلے داعش کے عسکریت پسند شام کے مشرق میں واقع دیر الزور کو فتح کرنے کے انتہائی قریب تھے۔ یاروب العبداللہ کے پاس انتہائی کم وقت تھا کہ وہ ان ہزاروں قدیم نوادرات کو بچا سکے، جن سے وہ بہت محبت کرتا تھے۔ یاروب العبداللہ اپنی چار بیٹیوں اور بیوی کو پہلے ہی ایک محفوظ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہو چکا تھا لیکن مسئلہ نوادرات کا تھا۔

گرمیوں کی تپش اپنے عروج پر تھی اور دیر الزور میں محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ عبداللہ نے روزہ بھی رکھا ہوا تھا۔ اس کے ماتحت عملہ پہلے ہی مرکزی عجائب گھر کی اہم اشیاء کو ڈبوں میں بند کر چکا تھا تاکہ ہنگامی حالات میں انہیں کسی محفوظ مقام تک پہنچایا جا سکے۔

عبداللہ نے دمشق حکام سے رابطہ کیا اور فوری طور پر بارہ بڑے باکسز کے ہمراہ دارالحکومت کی طرف روانہ ہوگیا۔ ان ڈبوں میں انتہائی نایاب چھوٹے مجسمے بھی شامل تھے۔ اس طرح پانچ ہزار سال پرانا وہ مجسمہ بھی محفوظ بنا لیا گیا، جو ایک مسکراتے ہوئے عبادت گزار کا تھا۔ یہ نوادرات قدیم تہذیبوں کی نشانیاں ہیں اور ان کو بچانے کے لیے شام حکومت کی طرف سے ملک بھر میں ایسے خفیہ آپریشن کیے گئے تھے، جن کا مقصد تاریخی ورثے کو داعش کے ہاتھوں تباہ ہونے سے محفوظ بنانا تھا۔

Rettung von antiken Artefakten aus Syrien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/The Day After Heritage Initiative

ابھی تک صرف چند ہی لوگ تھے جو ان کوششوں سے آگاہ تھے لیکن اب ان آپریشنز میں ملوث افراد نے ماضی کی ان کوششوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان خفیہ آپریشنز میں کم از کم انتیس افراد شامل تھے اور شام کے چونتیس اہم عجائب گھروں میں سے تین لاکھ سے زائد نوادرات دارالحکومت پہنچائے گئے۔

اب یہ نوادرات انتہائی خفیہ اور نامعلوم مقام پر رکھے گئے ہیں اور ان کے بارے میں صرف چند ماہرین کو علم ہے۔ ملک میں عہدِ قدیم اور عجائب گھروں کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے سربراہ مامون عبدالکریم کا کہنا تھا، ’’چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان نوادرات کو کہاں رکھا گیا ہے، یہ بات نہ تو کوئی سیاست دان جانتا ہے نہ ہی کوئی عام شامی شہری۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بہت کچھ ایسا ہے، جسے محفوظ نہیں بنایا جا سکا۔ مثال کے طور پر پالمیرا کے قدیم ورثے کو نقصان پہنچایا گیا ہے، جسے آثار قدیمہ کا تاج سمجھا جاتا ہے۔ داعش کے عسکریت پسندوں نے پالمیرا پر قبضہ کرتے ہوئے کم از کم دو قدیم مندروں کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا تھا لیکن شامی فورسز نے چند روز پہلے دوبارہ پالمیرا کا قبضہ داعش سے چھڑوا لیا ہے۔