1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کا بحران اور بڑی طاقتوں کے اختلافات

کشور مصطفیٰ10 ستمبر 2015

شام کے اندر اور اس بحران کے شکار مہاجرین کی وجہ سے یورپ میں ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کے باوجود مغرب، خلیج، روس اور ایران جیسی اہم عالمی طاقتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف عسکری اور سفارتی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GUJd
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Ap/Pool

یورپ کی طرف بڑھتا ہوا مایوس شامی مہاجرین کا سیلاب اور ساحل سمندر پر پڑی ایک ننھے بچے کی لاش کے خاکے منظر عام پر آنے کے بعد سے جہاں ایک طرف مہاجرین کی امداد کا بے مثال کام شروع ہو گیا ہے وہاں بڑی طاقتیں شام کی مسئلے کے حل کے لیے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات چیت تک کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔

شام کے اندر اور اس بحران کے شکار مہاجرین کی وجہ سے یورپ میں ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کے باوجود مغرب، خلیج، روس اور ایران جیسی اہم عالمی طاقتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف عسکری اور سفارتی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب شام میں انتہا پسند جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کی بپاء کی ہوئی جنگ کے بارے میں مغرب میں تشویش میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، یورپی ملک فرانس اور آسٹریلیا شام میں جہادی گروپ داعش پر بمباری کی مہم میں اضافے پر غور کر رہے ہیں اور شام میں ایک ڈرون حملے میں دو برطانوی جہادیوں کی ہلاکت کے بعد، برطانیہ بھی فضائی حملوں کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

Syrien Sabadani Gefechte
شامی شہر کھنڈرات بن چُکے ہیںتصویر: picture alliance/dpa/RIA Novosti

مشرق وُسطیٰ کے امور کے ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ آئی ایس یا داعش کو نظر انداز کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی اور یہ کہ شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ٹھوس اور نتیجہ خیز مذاکرات کی تمام تر کوششیں کی جانی چاہئیں۔ شام کا چار سال سے جاری بحران اس کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر چُکا ہے اور اس کا شکار ہو کر دو لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔

انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز IISS سے منسلک ایک ماہر ایمیل حُکایم کے بقول، ’’یہ مسئلہ صلاحیت کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا ہے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں،’’ شام میں بمباری کی مہم میں مزید برطانوی، فرانسیسی اور آسٹریلوی طیاروں کی شمولیت آئی ایس کے مزید ٹھکانوں کو تباہ ضرور کر سکتی ہے لیکن یہ اس بنیادی مسئلے کا نہ تو حل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس سوال کا جواب کہ آخر شام میں اسلامک اسٹیٹ گروپ کیوں پھیل رہا ہے؟‘‘

Iran Österreichischer Bundespräsident Heinz Fischer in Teheran
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ شام کے معاملے میں تہران حکومت امریکا سے مذاکرات نہیں کرے گیتصویر: Khamenei.ir

شام کے تنازعے میں ملوث ممالک، جن میں سے زیادہ تر کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں، اس امر پر متفق ہیں کہ داعش سب سے بڑا دشمن ہے تاہم ان کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے کردار پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ایمیل حُکایم کے بقول، ’’یہ حقیقت ہے کے ان سب کا دشمن ایک ہی ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کے یہ اس دشمن کے خلاف کارروائی کا ایک ہی طریقہ کار اپنائیں‘‘۔

ایمیل حُکایم کا کہنا ہے کہ ترکی، امریکا اور خلیجی ممالک کے مابین اب بھی گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ امید پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی کہ ایران مغربی دنیا کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد کسی تازہ سفارتی مہم کو آگے بڑھا سکے گا اور اس عمل میں روس بھی شام کے بحران کے حل کے لیے کوششیں کرے گا۔