1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام پر اسرائیلی حملوں کے بعد ’حالات معمول پر‘

6 مئی 2013

48 گھنٹوں میں شام پر دوسری مرتبہ اسرائیلی فضائی حملوں کے ایک ہی روز بعد پیر کو اسرائیل میں حالات ایسے ہیں گویا کوئی بھی غیر معمولی بات نہ ہوئی ہو۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پروگرام کے مطابق اتوار کو بیجنگ روانہ ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/18SmO
تصویر: Reuters

شام اور اُس کے حلیف ایران نے ممکنہ جوابی کارروائی کا عندیہ دیا ہے، گو اس مرتبہ سرکاری رد عمل میں بیان بازی ماضی کے مقابلے میں قدرے نرم رہی۔ اگرچہ اسرائیل نے سرکاری طور پر ان پَے در پَے فضائی حملوں کا اعتراف نہیں کیا ہے تاہم یہ بمباری بہرحال عمل میں آئی ہے اور اِس کے نتیجے میں ایک علاقائی جنگ کے حوالے سے نئے خدشات نے سر اُبھارا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق ایران شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے ممکنہ خاتمے سے پہلے پہلے لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو جدید ترین ہتھیار فراہم کر دینا چاہتا ہے اور اسی لیے اُنہوں نے اشارہ دیا ہے کہ اسرائیل ان ایرانی ارادوں کو پایہء تکمیل تک نہ پہنچنے دینے کے لیے آئندہ بھی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

اسرائیل نے جنوری میں بھی لبنان کو جانے والی طیارہ شکن میزائلوں کی ایک کھیپ پر ایسا ہی حملہ کیا تھا تاہم اِس کے بعد اُس نے کافی حد تک خاموشی اختیار کر لی تھی۔ تاہم یہ خاموشی گزشتہ اختتام ہفتہ پر شامی سرزمین پر دو مرتبہ فضائی بمباری کے ساتھ ٹوٹی ہے، جس میں اتوار کی صبح دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع ایک فوجی کمپلیکس پر کیا جانے والا وہ حملہ بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں طاقتور دھماکے ہوئے اور آسمان تک بلند ہوتے ہوئے شعلوں نے رات کو دن میں تبدیل کر دیا۔

شامی وزیر اطلاعات عمران الزعبی پانچ مئی کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
شامی وزیر اطلاعات عمران الزعبی پانچ مئی کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: Reuters

ایک اسرائیلی اہلکار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں فضائی حملوں میں فتح 110 طرز کے ان میزائلوں کو نشانہ بنایا گیا، جو لبنان جا رہے تھے۔ ایران میں تیار کیے گئے یہ گائیڈڈ میزائل اسرائیل میں دور تک مار کر سکتے ہیں اور نصف ٹن وزنی بموں کو ٹھیک ٹھیک ہدف پر گرا سکتے ہیں۔

شامی حکومت نے ان حملوں کو ’بین الاقوامی قانون کی ایسی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں مشرقِ وُسطیٰ کا خطّہ ’مزید خطرناک‘ ہو گیا ہے۔ دمشق حکومت کے مطابق یہ حملے اُن باغی گروپوں کے ساتھ اِس یہودی ریاست کے روابط کا بھی ایک ثبوت ہیں، جو اسد حکومت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔

شامی کابینہ کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد ایک بیان پڑھ کر سناتے ہوئے وزیر اطلاعات عمران الزعبی نے کہا کہ ’تمام تر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے عوام کا دفاع کرنا‘ شام کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔

اسرائیلی دفاعی حکام کے خیال میں بشار الاسد اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور ایسے میں وہ ایک اور محاذ کھولنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہوں گے۔ شام میں مارچ 2011ء میں شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں اب تک 70 ہزار سے زیادہ افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں، ایسے میں اسرائیلی حکام کے خیال میں دمشق حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اور اسد کے اقتدار کا سورج کسی بھی وقت غروب ہو سکتا ہے۔

شام کی طرف سے کسی جوابی کارروائی کے امکان کے پیشِ نظر اسرائیل نے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں
شام کی طرف سے کسی جوابی کارروائی کے امکان کے پیشِ نظر اسرائیل نے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیںتصویر: Reuters/Baz Ratner

اس کے باوجود اسرائیل نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اتوار کو ملک کے شمال کی جانب آئرن ڈوم میزائل شکن نظام کی دو بیٹریاں تعینات کر دیں۔ اسرائیل کے مطابق گزشتہ نومبر میں غزہ پٹی میں حماس کے عسکریت پسندوں کے ساتھ آٹھ روزہ لڑائی کے دوران اس دفاعی نظام کی مدد سے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے سینکڑوں راکٹوں کو مار گرایا گیا۔ 2006ء کی جنگ میں لبنانی ملیشیا حزب اللہ نے بھی کوئی چار ہزار راکٹ اسرائیل کی جانب فائر کیے تھے اور اسرائیل کا خیال ہے کہ اب اس ملیشیا کے پاس دسیوں ہزار راکٹوں اور میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ تاہم اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ اُنہوں نے اب تک فتح 110 طرز کے کوئی بھی ایرانی راکٹ لبنان نہیں پہنچنے دیے ہیں۔

تازہ اسرائیلی حملوں نے شامی حکومت کو بھی ایک آزمائش سے دوچار کر دیا ہے، جو کوئی بھی جوابی کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے اور اتنی کمزور نظر آ رہی ہے کہ ایسے مزید فضائی حملوں کا امکان بڑھ گیا ہے۔ تاہم کسی بھی طرح کی جوابی فوجی کارروائی سے یہودی ریاست اور اُس کی طاقتور فوج کے ساتھ ایک سرحدی تنازعے کے خطرے میں اضافہ ہو جائے گا۔ چند ایک استثنائی حالات کو چھوڑ کر گزشتہ چالیس برسوں میں اسرائیل اور شام کے درمیان کوئی براہِ راست لڑائی نہیں ہوئی ہے۔

وائٹ ہاؤس نے شامی سرزمین پر اسرائیلی فضائی حملوں کے سلسلے میں براہِ راست کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے تاہم کہا ہے کہ صدر باراک اوباما کے خیال میں اسرائیل کو حزب اللہ کی جانب سے درپیش خطرات کے جواب میں اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔

(aa/zb(ap