1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں کم از کم چار سو ایرانی جنگجو مارے گئے،شہداء فاؤنڈیشن

مقبول ملک14 اگست 2016

خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اسد حکومت کی حمایت میں شامی باغیوں اور جہادیوں کے خلاف لڑنے والے مختلف ایرانی ملیشیا گروپوں کے اب تک کم از کم چار سو ارکان مارے جا چکے ہیں۔ یہ بات ایرانی شہداء فاؤنڈیشن کے سربراہ نے کہی۔

https://p.dw.com/p/1Ji4F
Abbas Abdollahi ACHTUNG SCHLECHTE QUALITÄT
ایرانی محافظین انقلاب کا رکن عباس عبدالحئی جو جنوبی شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑتا ہوا مارا گیاتصویر: arjanews.ir

ایرانی دارالحکومت تہران سے اتوار چودہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق شام میں مارے جانے والے ان اسد نواز جنگجوؤں کے ایران میں پسماندگان کی مالی معاونت اور دیکھ بھال کا کام شہداء فاؤنڈیشن نامی ملکی ادارہ کرتا ہے۔

یہ ادارہ ایسے افراد کے خاندانوں کی مالی مدد کرتا ہے، جو کہیں بھی لیکن ایران کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے ہوں۔ ان ہلاک شدگان کے خاندانوں کی مدد کے لیے ضروری نہیں کہ مرنے والے لازمی طور پر ایرانی شہری ہی ہوں۔ ’شہید‘ قرار دیے جانے والے ایسے فائٹرز میں غیر ایرانی جنگجو بھی شامل ہوتے ہیں۔

نیم سرکاری ایرانی خبر رساں ادارے آئی ایل این اے نے آج اپنی رپورٹوں میں بتایا کہ شام میں سرگرم ایرانی فائٹر بریگیڈز کے وہاں عسکری کارروائیوں کے دوران مارے جانے والے کم از کم 400 ارکان کے خاندانوں کے معاملات شہداء فاؤنڈیشن کے سپرد کیے جا چکے ہیں۔

اس ایرانی نیوز ایجنسی نے شہداء فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد علی شہیدی کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ شام میں مارے جانے والے ان فائٹرز کی تعداد کا اعلان بہت طاقت ور سمجھے جانے والے ایرانی محافظین انقلاب کی طرف سے کیا گیا۔ ’’محافظین انقلاب نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان جنگجوؤں میں سے نصف کے قریب افغان تھے۔‘‘

Ali Soltan Moradi ACHTUNG SCHLECHTE QUALITÄT
جنوبی شام میں اسد حکومت کی حامی ایرانی ملیشیا کی طرف سے لڑتے ہوئے مارا جانے والا ایرانی محافظین انقلاب کا رکن علی سلطان مرادیتصویر: arjanews.ir

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایرانی حکام نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ شام میں ایرانی ملیشیا ارکان کے طور پر لڑتے ہوئے اب تک کل تقریباﹰ کتنے فائٹر مارے جا چکے ہیں۔

شام میں کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی میں ایران صدر بشار الاسد کا بہت بڑا حامی ہے اور تہران کی طرف سے دمشق حکومت کی سیاسی حمایت کے علاوہ اس کی عسکری مدد بھی کی جاتی ہے۔

یہ بات بھی ایک عرصے سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بہت سے افغان شیعہ جنگجو بھی، جن میں سے کئی کے خاندان مہاجرین کے طور پر برسوں سے ایران میں آباد ہیں، شام میں ایرانی ملیشیا گروپوں کے ارکان کے طور پر لڑتے رہے ہیں۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ ایرانی حکام نے شام میں مارے جانے والے افغان شیعہ جنگجوؤں کی تعداد کا کوئی اشارہ دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں