شام میں خانہ جنگی: بچوں کا بطور انسانی ڈھال استعمال
15 مارچ 2013شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی کے اثرات کے حوالے سے بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم Save The Children نے ’بچپن گولیوں کی زد میں‘ کے عنوان سے تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس خونریز لڑائی سے بیس لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 70 ہزار افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں۔
’سیو دی چلڈرن‘ کی رپورٹ کے مطابق شامی بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ساتھ ہی ان کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔ جنسی تشدد سے تحفظ کے لیے لڑکیوں کو جلد شادیاں کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
مسلح فریقوں کی جانب سے 18 سال سے کم عمر بچوں کی بھرتی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو بار برداری، محافظوں کے طور پر، معلومات جمع کرنے اور لڑائی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی بچے اور ان کے خاندان اس بات کو باعث فخر سمجھتے ہیں لیکن بعض بچوں کو زبردستی عسکری سرگرمیوں کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک ترک یونیورسٹی کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں ہر تین میں سے ایک بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شام میں ہزاروں بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر بچے پارکوں اور دیگر جگہوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ مخدوش حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ان کے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جانے کے خطرات بھی قدرے زیادہ ہیں۔
برطانوی خیراتی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ نے شامی تنازعے کے فریقین سے اپیل کی ہے کہ اس تنظیم کے کارکنوں کو جنگ زدہ علاقوں میں جانے کی اجازت دی جائے۔ بین الاقوامی برادری سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ شام کے لیے انسانی بنیادوں پر اعلان کردہ امداد فراہم کریں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ شام میں جاری تنازعے کی وجہ سے وہاں ایک پوری نسل انسانی خطرے میں ہے۔ یونیسیف کے مطابق شام میں اس وقت 18 سال سے کم عمر کے 20 لاکھ بچوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔
zh / mm (AFP)