1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں تعینات روسی فوجیوں کو پیش کی جانے والی مراعات

عابد حسین4 نومبر 2015

شام کے لیے جاری روس کے عسکری مشن میں شریک ہونے والے روسی فوجیوں کو مالی ترغیب دی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ بیشتر فوجی وہاں اپنے ملکی وقار کو بلند کرنے کے لیے بھی گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GzUD
تصویر: Reuters/Ministry of Defence of the Russian Federation

اب تک ایک ہزار کے قریب روسی فوجی شام پہنچ چکے ہیں اور نئی نسل کے یہ روسی فوجی اپنے مشن کو خفیہ رکھنے میں کسی حد تک احساسِ ذمہ داری اور ملکی وقار کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں سے دوگنا تنخواہ دینے کا بھی وعدہ دیا گیا ہے۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اِس مشن کے دوران وہ پچاس ہزار رُوبل تک کما سکیں گے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کئی لوگ زیادہ تنخواہ کے حصول کے لیے شام جانا چاہتے ہیں لیکن کئی ایک کی درخواستیں عمر اور ہیلتھ معاملات کے تناظر میں مسترد کر دی گئی ہیں۔ حکومت نوجوانوں کو روانہ کرنے میں ترجیح دے رہی ہے۔ کئی روسی فوجیوں کا خیال ہے کہ وہ اضافی تنخواہ سے اپنا اپارٹمنٹ خریدنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں۔ اِس دوران اکتوبر میں شام میں متعین پہلے روسی نے خودکشی بھی کر لی ہے۔

یہ رواں برس ستمبر کی بات ہے۔ کریمیا کے علاقے سواسٹیپول کے روسی بحریہ کے سیلر نے چھٹی کے بعد واپس روانہ ہونے لگا تو اُس نے اپنے خاندان کو بتایا کہ وہ بحیرہ روم میں فوجی مشقوں کے لیے جا رہا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اوکسانا کے والد کو شام میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کو یہ بات اوکسانا نے اپنا نام مخفی اور تبدیل کر کے بتائی۔ اِس عرصے میں وہ اپنے والد کا ٹیلی فون بھی وصول کرتی رہی ہے لیکن وہ اپنے مقام کے بارے میں کوئی اطلاع اپنے خاندان کو نہیں دے رہا تھا۔ اوکسانا کا خیال ہے کہ اُس کا والد جانتا ہے کہ وہ کب واپس اپنے گھر لوٹ کر جائے گا لیکن اِس مناسبت سے اپنے خاندان کو کچھ نہیں بتایا۔

Russland Syrien Begräbnis des russischen Soldaten Vadim Kostenko
روس میں مرنے والے پہلے روسی فوجی کی تدفین کا عملتصویر: picture-alliance/epa/M. Romanov

اوکسانا کے مطابق اُس کا والد سیٹلائٹ ٹیلی فون کے ذریعے بات کرتا ہے، اِس لیے کسی لوکیشن کا پتہ نہیں چل سکا۔ اُن کی تنخواہ بھی اُن کے اکاؤنٹ میں بھیج دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ روس کا شام میں ملٹری آپریشن رواں برس تیس ستمبر سے فضائی حملوں کے ذریعے شروع کیا گیا۔ بعد میں فوجی تعاون کو وسعت دے دی گئی ہے۔ روس ایک فوجی ہوائی اڈہ بھی تعمیر کر رہا ہے۔ ابھی تک روس نے شام میں اپنے فوجی مشن کے خاتمے کے حوالے سے کوئی نظام الاوقات ترتیب نہیں دیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ سن 1982میں بھی بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی آمریت کے خلاف ایک بہت بڑی عوامی تحریک اٹھی تھی۔ اُس وقت بھی سابقہ سوویت یونین نے شامی صدر کی فوجی مدد کی تھی۔ اِس طرح ماسکو سے شام کے لیے دوسری مرتبہ فوجی مدد پہنچی ہے۔ اُس مدد کا فیصلہ سابقہ سوویت لیڈر لیونڈ بریژنیف نے کیا تھا۔ اُس امداد کو ’’قفقاذ ٹو ملٹری‘‘ مشقوں کا نام دیا گیا تھا۔ عرب تاریخ میں سن 1982 کی اسلامک تحریک کو کرش کرنے کے عمل کو ’ حما قتلِ عام‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دمشق حکومت کی افواج نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے حما شہر کا ستائیس دن تک محاصرہ کیے رکھا اور محتاط اندازوں کے مطابق دس ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ شام کے انسانی حقوق کے حلقے ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہز ار بیان کرتے ہیں۔