شام: جنگ کے لیے کم سن بچوں کی بھرتی
23 جون 2014رپورٹ کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینٹ لیوینٹ‘ آئی ایس آئی ایل، جس نے سرحد پار عراق میں تیزی سے وسیع تر علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہے، نے شام میں ان بچوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دی تھی اور انہیں خود کُش بم حملے کرنے کی ترغیب دلائی تھی۔
اس ہیومن رائٹس گروپ نے یہ تفصیلات مختلف بچوں کے ذاتی کوائف کے حوالے سے بتائی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسے ایسے شواہد بھی ملے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کم سن بچوں کو متحرک کرنے میں مغرب نواز اور قدرے اعتدال پسند فری سیریئن آرمی کا بھی ہاتھ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ، دی اسلامک فرنٹ اتحاد اور کردوں کے کنٹرول والے علاقوں کی سکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ کی مصنفہ پریانکا موٹوپارتھی کے بقول، "بچوں کو جنگ کی فرنٹ لائن میں کھڑا کرنے کی وجہ سے شام کی جنگ کا ہولناک منظر بد تر ہو گیا ہے"۔ اس رپورٹ میں 25 بچوں کے ذاتی کوائف شامل کیے گئے ہیں۔ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ شام کی جنگ میں 14 سال تک کے کم عمر بچوں کو جنگی کارروائیوں میں معاونت کے لیے استعمال کیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بچوں کے ان ذاتی کوائف کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اُدھر برطانیہ میں قائم شامی صدر بشار الاسد کے مخالف مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ایک روز قبل اتوار کو کہا تھا کہ شام میں اغوا ہونے والے طالبعلموں کے رشتہ داروں کو یہ خطرہ ہے کہ
’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینٹ لیوینٹ‘ آئی ایس آئی ایل ان بچوں کو کار بم حملوں یا خود کُش حملوں کے لیے استعمال کرے گی۔
شام کا بحران 2011 ء میں ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے ہونے والے پُر امن مظاہروں سے شروع ہوا تھا تاہم یہ گزشتہ برسوں کے دوران خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔ ایک طرف شامی صدر بشار الاسد کی فورسز ہیں اور دوسری جانب اُن کے مخالف متعدد عسکریت پسند گروپوں کا اتحاد ہے۔
دریں اثناء حزب اختلاف کے جنگجوؤں کے درمیان آپس میں شروع ہونے والی لڑائی نے شام کے تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ شام کا بحران ملک کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے دیگر قریبی
ممالک تک کو اپنی لپیٹ میں لے چُکا ہے۔ جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات اور شیعہ سُنی کشیدگی نظر آ رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ شام کی جنگ میں لڑنے والے بچوں کی حقیقی تعداد معلوم نہیں ہے تاہم شام میں کام کرنے والے ایک مانیٹرنگ گروپ ’دی وائلیشنز ڈاکومنٹنگ سنٹر‘ کے مطابق 2011ء سے اب تک ملک میں 194 ایسے بچے ہلاک ہو چکے ہیں جو ممکنہ طور پر جنگ میں شریک تھے۔