سیکریٹری جنرل نیٹو یاپ ڈی ہاپ شیفر کا دورہ پاکستان
22 جنوری 2009جمعرات کو اسلام آباد میں صدراورفوج کے سربراہ کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں نیٹو سیکرٹری جنرل نے زور دیا کہ پاکستان اور نیٹو کو مل کر افغانستان میں استحکام کےلئے کوششیں تیز کرنی ہوں گی اور یہ کہ اس سلسلے میں نیٹو سمیت تمام ممالک کو ’Do More‘ کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔ نیٹو کے سیکرٹری کے جنرل نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور اس ضمن میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ تاہم بقول ان کے پاکستان کو سرحد کے اس پار سے افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف مزید سخت کارروائی کرنی ہو گی۔ شیفر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے بعد ہی تعمیر وترقی اور اقتصادی بہتری کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔’’ صرف فوج کی تعداد میں اضافہ ہی کافی نہیں اس کے لیے تعمیر نو اور ترقی ضروری ہے اوراس سلسلے میں امن ا ور سلامتی درکار ہے اور اسی کے لیے فوج کاکرداربنتا ہے۔‘‘
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کو ممبئی حملوں کے بعد کی صورت حال سے بھی آگاہ کیا اور یہ کہ پاک بھارت کشیدگی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔ وزیرخارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے باوجود پاکستان مغربی سرحد پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے ان کے بقول نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ قبائلی علاقوں کے ترقیاتی امور بھی زیر بحث آئے ۔
دریں اثناء جمعرات ہی کے روز سوات اور قبائلی علاقوں کی صورت حال پر غور کے لئے ایوان صدر میں اعلیٰ سطحی ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر آصف زرداری نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طاقت کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جائے ا ور ہتھیار پھینکنے والے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔